آج پھر اک شہر میں کچھ بے گناہ مارے گئے
پھر لکھا جائے گا قاتل نا معلوم افراد تھے
آج پھر اک بہن کے سر سے ردا چھینی گئی
آج پھر بکھرے ہوئے کچھ تتلیوں کے پر ملے
آج پھر کچھ مہرباں دیکھے گئے ہیں باغ میں
آج پھر کچھ پھول مسلے جائیں گے پاؤں تلے
آج پھر جشنِ آزادی پہ جلے لاکھوں چراغ
آج پھر اپنوں کے ہاتھوں سے بہت سے گھر جلے
آج پھر خالد تمہارے دیس میں آندھی چلی
آج پھر کچھ راہنما کچھ راہنماؤں سے ملے