آج کسی کو بھی جلدی نہیں گھر جانے کی
قصہ تو نیا ہے، مگر بات ہے وہی پرانی سی
کہتے ہیں یہ لوگ کہ ڈوب گیا سب کچھ انکا
اہل اقتدار تھے ظالم، یہ اُنکی ذمےداری تھی
نہ جانے مجھ کو مگر کیوں لگتا ہے ایسا
روٹھا کوئی مہرباں ہم سے، یہ وجہِ آسمانی تھی
کسی دانشور نے کہا کہ بند نہ تھے
اور کسی نے کہا موجوں میں فراوانی تھی
عادت پڑ چکی ہیں ظلم کی ہم کو اب تو
افسوس تو یہ ہے کہ سہنے کی بھی اور ڈھانے کی
بہتے گھر، روتے بچے، مائیں اور باپ
کوئی ایسے نہ تھا کم جس کی پریشانی تھی
دکھ سب سنا رہے تھے اور حال بھی اپنا
افسوس ہوا بس اُن کو، جن کو فکرِ انسانی تھی
،اُمیدوں اُن سے کیۓ بیٹھے ہو کیا تم اب تک
عادت جن کی ہے صرف جھنڈے لہرانے کی؟
باتیں بہت سنی اور تجویزیں بھی سنی سب کی
نہ دیکھی آنکھ مگر جس میں پشیمانی تھی
ہے یہ تقاضہ وقت کے ہم ایک ہو جائیں
ضرورت ہے قوم سے ملّت بن جانے کی
جُھکا سر رب کہ آگے اور کر توبہ نادر
یہ گھڑی ہے اپنے رب کی طرف لوٹ جانے کی
آج کسی کو بھی جلدی نہیں گھر جانے کی
قصہ تو نیا ہے مگر بات ہے وہی پرانی سی