آخر غم جاناں کو اے دل بڑھ کر غم دوراں ہونا تھا
اس قطرے کو بننا تھا دریا اس موج کو طوفاں ہونا تھا
ہر موڑ پہ مل جاتے ہیں ابھی فردوس و جناں کے شیدائی
تجھ کو تو ابھی کچھ اور حسیں اے عالم امکاں ہونا تھا
وہ جس کے گداز محنت سے پر نور شبستاں ہے تیرا
اے شوخ اسی بازو پہ تری زلفوں کو پریشاں ہونا تھا
آتی ہی رہی ہے گلشن میں اب کے بھی بہار آئی ہے تو کیا
ہے یوں کہ قفس کے گوشوں سے اعلان بہاراں ہونا تھا
آیا ہے ہمارے ملک میں بھی اک دور زلیخائی یعنی
اب وہ غم زنداں دیتے ہیں جن کو غم زنداں ہونا تھا
اب کھل کے کہوں گا ہر غم دل مجروحؔ نہیں وہ وقت کہ جب
اشکوں میں سنانا تھا مجھ کو آہوں میں غزل خواں ہونا تھا