جگر شکستہ ہے تو دیدے پُرنم ہیں میرے
کوئی پُرسان حال نہیں مگر ایسے حالات میں
رپٹ تو تب درج ہوتی زخم جو کچھ دکھلا پاتے ہم
دل میں پیوست ہو گے تیر چُھپے تھے جو نگاہ التفات میں
وہ حقیقت سے گریزاں رہا کچھ مبالغہ آرائی مجھے پسند نہ تھی
فرق دو ساحلوں سا رہا اُس کے اور میرے خیالات میں
رفتہ رفتہ کسکتا رہا آخر کسک گیا میرے ہاتھوں اُس کا ہاتھ
پچھتایا وہ بہت رہ گیا میرے ہاتھ کا لمس جو اُس کے ہاتھ میں
یہ آشفتہ سری نہیں تو کیا ہے کہ سر شام در کھلے چھوڑ دئیے
روٹھ گیا تھا جو دن میں شاید لوٹ آئے کسی پہر رات میں
تعجب نہیں روٹھنے پر اُس کے چلے جانے پر پیشماں نہیں میں
تھی خبر کے سایہ بھی چھوڑ جائے گا ایسے حالات میں
ہم تُجھ سے اُن مراسم کی امید نہیں رکھتے جو قصّہ پَارنیہ ہوئے
بس زندگی کی شام تمام ہوئی آجانا تدفین کے آخری لمحات میں