آرزوؔ جانے بھی کیسے کوئی رتبہ ماں کا
روئے جنت سے حسیں لگتا ہے تلوا ماں کا
خود تو بھوکی ہے کھلاتی ہے مگر بچوں کو
میں تو قربان گیا دیکھ کے فاقہ ماں کا
بھول بیٹھا وہ جواں ہو کے سبھی احسانات
جو کبھی اوڑھ کے سوتا تھا دوپٹہ ماں کا
ساری الجھن مری پل بھر میں سلجھ جاتی ہے
سامنے جب مرے آ جاتا ہے چہرہ ماں کا
دن میں تارے نظر آ جاتے ہیں ان کو اکثر
آرزوؔ جن کے سروں پر نہیں سایا ماں کا