آزادی ء اظہار کی تعبیر ملی ہے
اے ملک تری ہم کو جاگیر ملی ہے
کھولا جو کبھی درد کی مٹی کو ہٹاتے
صندوق سے بس آپ کی تصویر ملی ہے
شرمائی ہوئی خون کے رنگوں سے بنائی
خاموش محبت کی وہ تصویر ملی ہے
پردیس میں اس ریت کے طوفاں سے گزر کر
مشکل سے بہاروں کی یہ تاثیر ملی ہے
صدیوں کی ریاضت کا نتیجہ مجھے پوچھے
کیوں پاؤں میں حالات کی زنجیر ملی ہے
ہم دینِ محمد پہ یہ جاں اپنی لٹا دیں
کربل سے اگر رسمِ شبیر ملی ہے
بینائی حوادث میں گنوا دی یہاں وشمہ
آنکھوں کو کہاں خو اب کی تعبیر ملی ہے