آزادی ١٤ اگست
Poet: Javed Iqbal Cheema By: Javed Iqbal Cheema, Italiaبڑے شوق سے ١٤ اگست منا جاتا ہوں
تقریروں سے دل تمہارا بہلا جاتا ہوں
بچے بچے کو کیوں یاد ہے یہ دن ہمارا
کیونکہ چھٹی میں اس دن منا جاتا ہوں
پراڈو سے اترتا ہوں چار غنڈوں کے ساتھ
قاعد کے احسان سے چہرہ اپنا چمکا جاتا ہوں
کرپشن اور نا انصافی کو فرض سمجھتا ہوں
اور مجبوری سے فوٹو قاعد کی لگا جاتا ہوں
روٹی کپڑا مکان بجلی گیس ہیں وعدے میرے
یہ بتا کر فرض کو روشناس کروا جاتا ہوں
آزاد ہوں آزادی میں ہر کام کر جاتا ہوں
منا کے ١٤ اگست میں گھر کو چلا جاتا ہوں
تقریر شعروں سے شروح اور ختم کر کے
ملت کی حالت فقیری کو بھلا جاتا ہوں
چاند جیسی پیاری دھرتی ہے میری
یہ سنہری بات بھی تم کو بتا جاتا ہوں
حصے بخرے کرنے کی سازش میں ہوں شامل
پھر بھی حق پیدایش جتا کے آزادی منا جاتا ہوں
لاشوں پے کرتا ہوں سیاست حالت جنگ میں بھی
کیٹ واک اور میوزک شو کروا جاتا ہوں
لوگوں کو غداروں منافقوں کی کہانیاں سنا کر
خود آزادی میں میر جعفر صادق کو بھلا جاتا ہوں
حکومت میں پاکستان میں کرتا ہوں
کاروبار امریکا یورپ میں کرتا ہوں
پیسہ میرا محفوظ نہیں ہے یہاں
پیسہ باہر کے ملکوں میں رکھتا ہوں
ملک سے بڑی محبت ہے مجھ کو
بنگلہ محل باہر کے ملک رکھتا ہوں
عقلمند ہوں مظاھرہ عقلمندی کا کرتا ہوں
عزیز خوشنودی لیکچر امریکا میں کرتا ہوں
حق دار کا حق دبا کر خوش رہتا ہوں
زمین اس کی اکڑ کر اس پر میں چلتا ہوں
وعدے کا پاس میں نہیں کرتا
جھوٹ منافقت پے گزارہ کرتا ہوں
جاوید دکھ کی کہانی ہے ١٤ اگست اور آزادی
تم بہلنے کے لئے آے تھے میں تم کو جلاتا ہوں
تم آزاد ہو مناؤ آزادی جاوید تمہیں کچھ نہیں کہتا
قاعد نے جو دی آزادی اس کی تلاش میں رہتا ہوں
یارو نفرت ہے مجھے اس لفظ آزادی سے
منافقت نہیں آتی اس لئے سچ کہتا ہوں
واقعہ قصور یا ماڈل ٹاون ہو اور ہو رانا سنا اللہ
اس تبصرے تجزیہ پر بے موت مر جانا چاہتا ہوں
جاوید تو اس آزادی سے خوش نہیں یارو
تم بھی خون اپنا جلاؤ میں بھی خون اپنا جلاتا ہوں
تم دھوم دھام سے ١٤ اگست مناؤ
میں رو رو کے ١٤ اگست مناتا ہوں
تذکرہ اجداد کا ہے نا گزیر
بھُول سکتا ہوں نوشہرہ کس طرح
جس کی مِٹّی سے اُٹھا میرا خمیر
پکّی اینٹوں سے بنی گلیوں کی شان
آج تک ہوں اسکی یادوں کا اسیر
دُور دُور تک لہلہاتے کھیت تھے
آہ وہ نظّارہ ہائے دلپذیر
میرے گھر کا نقشہ تھا کچھ اس طرح
چند کمرے صحن میں منظر پذیر
صحن میں بیت الخلا تھی اک طرف
اور اک برآمدہ بیٹھک نظیر
صحن میں آرام کُرسی بھی تھی ایک
بیٹھتے تھے جس پہ مجلس کے امیر
پیڑ تھا بیری کا بھی اک وسط میں
چار پائیوں کا بھی تھا جمِّ غفیر
حُقّے کی نَے پر ہزاروں تبصرے
بے نوا و دلربا میر و وزیر
گھومتا رہتا بچارا بے زباں
ایک حُقّہ اور سب برناؤ پیر
اس طرف ہمسائے میں ماسی چراغ
جبکہ ان کی پشت پہ ماسی وزیر
سامنے والا مکاں پھپھو کا تھا
جن کے گھر منسوب تھیں آپا نذیر
چند قدموں پر عظیم اور حفیظ تھے
دونوں بھائی با وقار و با ضمیر
شان سے رہتے تھے سارے رشتے دار
لٹکا رہتا تھا کماں کے ساتھ تیر
ایک دوجے کے لئے دیتے تھے جان
سارے شیر و شکر تھے سب با ضمیر
ریل پیل دولت کی تھی گاؤں میں خوب
تھوڑے گھر مزدور تھے باقی امیر
کھا گئی اس کو کسی حاسد کی آنکھ
ہو گیا میرا نوشہرہ لیر و لیر
چھوڑنے آئے تھے قبرستان تک
رو رہے تھے سب حقیر و بے نظیر
مَیں مرا بھائی مری ہمشیرہ اور
ابّا جی مرحوم اور رخشِ صغیر
کاش آ جائے کسی کو اب بھی رحم
کر دے پھر آباد میرا کاشمیر
آ گیا جب وقت کا کیدو امید
ہو گئے منظر سے غائب رانجھا ہیر
Mesmerized by raindrops falling outside
The soothing melody of the rain enhances the festive ambiance
Reminding me of what's missing—you
Our Christmas tree's fragrance fills the air
Flooding my mind with memories of our laughter and dialogue
The twinkling tree, adorned with memories of our past
Now serves as a poignant reminder of our missed joy
The Christmas bells' melody seems muted without you
Lacking the harmony only you can bring
Even the fireplace's warmth feels cold without your loving presence
I recall snuggling up together, watching flames dance
And sharing dreams
Santa's gifts pale compared to your presence
Let's celebrate our love this Christmas
Decorate the tree together, exchange gifts
And cherish every moment in each other's arms
Without you, everything feels hollow
With you, my heart aglow
Merry Christmas, my love, wherever you are
You're forever loved and glowing in my heart
Woven with tolerance and acceptance, life's every structure
My heart beats with humanism's gentle rhyme
Nourished by Sufism's spiritual essence, sublime
Like a garden of diverse flowers, I strive to grow
Respect and dignity for all, as my heart's deepest glow
Compassion and empathy's fragrance wafts through my soul
Promoting humanity and understanding, my heart's goal
Respect for all faiths and religions, a harmony so true
Guides my relationships, and shines bright, in all I do
As a guardian of our rich cultural heritage, I stand tall
Protecting and preserving our treasures, for one and all
Our culture's a precious tapestry, woven with love and care
Threads of tradition, values, and customs, forever we'll share
In my heart's silence, I hear my ancestors' gentle voice
Guiding me to stay true, to tolerance, acceptance, and compassion's choice
May my life be a testament, to Sindhi culture's beauty rare
Inspiring others to join me, on this journey we'll share
مری شان مری آن میرا وطن ہے
رہے گی زمانے میں توقیر ہردم
بنا میری پہچان میرا وطن ہے
کرونگا فدا جان جب وقت آیا
مرا دین ایمان میرا وطن ہے
ہلالی یہ لہراتا پرچم رہے گا
یہ سر سبز میدان میرا وطن ہے
یہاں پر میں آزاد ہوں شاد بھی ہوں
یہی ہے مری شان میرا وطن ہے
بہادر ہیں میرے وطن کے محافظ
مرا ہے نگہبان میرا وطن ہے
تلاوت سے آغاز ہوتا ہے دن کا
ہے سینے میں قرآن میرا وطن ہے
میں نازاں ہوں ہے ناز اپنے وطن پر
اسی سے ہے ذیشان میرا وطن ہے
خلوص و محبت سے لبریز ہیں سب
مرے دل کا درمان میرا وطن ہے
ملی ہیں زمانے کی شہزاد خوشیاں
نہیں کوئی ارمان میرا وطن ہے






