آزار و جفائے پیہم سے الفت میں جنہیں آرام نہیں
وہ جیتے ہیں لیکن ان کو مرنے کے سوا کچھ کام نہیں
افلاک کی گردش سے دم بھر دنیا میں ہمیں آرام نہیں
وہ دن نہیں وہ اب رات نہیں وہ صبح نہیں وہ شام نہیں
کیوں ہم نے محبت کی ان سے دقت میں پھنسے زحمت میں پھنسے
آغاز ہی میں دل میں کہتا تھا اچھا اس کا انجام نہیں
اس کا بھی الم اس کا بھی قلق یہ غم بھی ہمیں وہ غم بھی ہمیں
جینے کو غنیمت سمجھے تھے جینے میں مگر آرام نہیں
گلشن میں خزاں اب آ پہنچی مے خانے میں جی کیوں کر بہلے
وہ رنگ نہیں وہ لطف نہیں وہ دور نہیں وہ جام نہیں
ہر سانس سے آتی ہے یہ صدا مرنے کے لئے تیار رہو
جینے سے نہیں کچھ دلچسپی جینے سے ہمیں کچھ کام نہیں
قاتل کو یہ سمجھا دے کوئی نالے سے فغاں سے شیون سے
بسمل نہ کروں میں اے بسملؔ تو بسمل میرا نام نہیں