آزماؤں گی اسے میں بھی سحر ہونے تک
اپنے احساس کی حدت کو گہر ہونے تک
کچھ تو آداب محبت کا بھرم ہی رکھتے
وقت تو لگتا ہے کونپل کو شجر ہونے تک
اپنی دیوانگئ شوق کا کیا حال کہیں
خاک ہو جائیں گے ہم ان کو خبر ہونے تک
وقت ہے اب بھی غزلؔ روک لو اس کو بڑھ کر
کون ملتا ہے دعاؤں میں اثر ہونے تک