آغاز سخن تھا مقصود تو اقراء آواز آئ
زبان مصطفے بسم اللہ بنکے الفاز آئ
ابتدائے کار گر ہے شروع ربکے نام سے
تو کامیابی بصد احترام عز و نیاز آئ
آگ ہوا پانی اور مٹی چار عناصر جب ملے
الفاظ بھی بننے لگے سوچوں بھی پرواز آی
کوئ ظالم و جابر تھا تو گناہوں مین مبتلا
جھومی دنیا کہ اک ہستی بخشش کا لیکے راز آی
سینوں میں اضطراب قلب و جگر ہے بھلا کیوں
راب گناہ ہے دل تو آنکھ بھی نہ باز آئ
مرے دل کے اجڑے نگر کو مہکاء دیا جس نے وہ
کبھی حبشی کو کبھی رومی و جامی کو نواز آئ
بگڑیں صورتیں پہلی امتوں کی بوجہ عصیاں
مکر اب کہ شرم خدا کو حبیب ناز آئ
مقدر میں کسی کے داد تو شہرت کسی کے احمد
ترے حصے میں مکر ثناء رسول ممتاز آئ