آنکھوں میں کسی یاد کا رس گھول رہی ہوں الجھے ہوئے پلو سے گرہ کھول رہی ہوں وہ آئے خریدے مجھے پنجرے میں بٹھا دے میں باغ میں مینا کی طرح بول رہی ہوں ہر بار ہوا ہے مرے نقصان کا سودا کہنے کو ہمیشہ سے میں انمول رہی ہوں