آپ میری طبیعت سے واقف نہیں مجھ کو بے جا تکلف کی عادت نہیں
Poet: Iqbal Azeem By: ulfat, khi
آپ میری طبیعت سے واقف نہیں مجھ کو بے جا تکلف کی عادت نہیں
مجھ کو پرسش کی پہلے بھی خواہش نہ تھی اور پرسش کی اب بھی ضرورت نہیں
یوں سر راہ بھی پرسش حال کی اس زمانے میں فرصت کسی کو کہاں
آپ سے یہ ملاقات رسمی سہی اتنی زحمت بھی کچھ کم عنایت نہیں
آپ اس درجہ افسردہ خاطر ہوں آپ کوئی اثر اپنے دل پر نہ لیں
میں نے جو کچھ کہا اک فسانہ کہا اور فسانے کی کوئی حقیقت نہیں
ایسی محفل میں شرکت سے کیا فائدہ ایسے لوگوں سے کوئی توقع بھی کیا
جو کہا جائے خاموش سنتے رہو لب کشائی کی قطعاً اجازت نہیں
نکتہ چینی تو فطرت ہے انسان کی کس کا شکوہ کریں کس کو الزام دیں
خود ہمیں کون سے پارساؤں میں ہیں ہم کو دنیا سے کوئی شکایت نہیں
مجھ کو معلوم ہے آپ مجبور ہیں آپ میرے لیے مفت رسوا نہ ہوں
ایسے حالات میں بے رخی ٹھیک ہے مجھ کو اس بات پر کوئی حیرت نہیں
کچھ یہ اقبالؔ ہی پر نہیں منحصر سرگرانی مسلط ہے ماحول پر
عقل و دانش کے بڑھتے ہوئے بوجھ سے سر اٹھانے کی دنیا کو فرصت نہیں
سوئے ہوئے زخموں کو جگا کیوں نہیں دیتے
اس جشن چراغاں سے تو بہتر تھے اندھیرے
ان جھوٹے چراغوں کو بجھا کیوں نہیں دیتے
جس میں نہ کوئی رنگ نہ آہنگ نہ خوشبو
تم ایسے گلستاں کو جلا کیوں نہیں دیتے
دیوار کا یہ عذر سنا جائے گا کب تک
دیوار اگر ہے تو گرا کیوں نہیں دیتے
چہروں پہ جو ڈالے ہوئے بیٹھے ہیں نقابیں
ان لوگوں کو محفل سے اٹھا کیوں نہیں دیتے
توبہ کا یہی وقت ہے کیا سوچ رہے ہو
سجدے میں جبینوں کو جھکا کیوں نہیں دیتے
یہ جھوٹے خدا مل کے ڈبو دیں گے سفینہ
تم ہادیٔ برحق کو صدا کیوں نہیں دیتے
گنتی کے لوگ جانے پہچانے رہ گئے ہیں
کل جن حقیقتوں سے ماحول معتبر تھا
آج ان حقیقتوں کے افسانے رہ گئے ہیں
اب غارت چمن میں کیا رہ گیا ہے باقی
کچھ پیرہن دریدہ دیوانے رہ گئے ہیں
تاریخ عہد رفتہ بالاختصار یہ ہے
گلشن جہاں جہاں تھے ویرانے رہ گئے ہیں
اقبالؔ ڈھونڈھتے ہو تم جن کو محفلوں میں
ان کی جگہ اب ان کے افسانے رہ گئے ہیں
مجھ کو پرسش کی پہلے بھی خواہش نہ تھی اور پرسش کی اب بھی ضرورت نہیں
یوں سر راہ بھی پرسش حال کی اس زمانے میں فرصت کسی کو کہاں
آپ سے یہ ملاقات رسمی سہی اتنی زحمت بھی کچھ کم عنایت نہیں
آپ اس درجہ افسردہ خاطر ہوں آپ کوئی اثر اپنے دل پر نہ لیں
میں نے جو کچھ کہا اک فسانہ کہا اور فسانے کی کوئی حقیقت نہیں
ایسی محفل میں شرکت سے کیا فائدہ ایسے لوگوں سے کوئی توقع بھی کیا
جو کہا جائے خاموش سنتے رہو لب کشائی کی قطعاً اجازت نہیں
نکتہ چینی تو فطرت ہے انسان کی کس کا شکوہ کریں کس کو الزام دیں
خود ہمیں کون سے پارساؤں میں ہیں ہم کو دنیا سے کوئی شکایت نہیں
مجھ کو معلوم ہے آپ مجبور ہیں آپ میرے لیے مفت رسوا نہ ہوں
ایسے حالات میں بے رخی ٹھیک ہے مجھ کو اس بات پر کوئی حیرت نہیں
کچھ یہ اقبالؔ ہی پر نہیں منحصر سرگرانی مسلط ہے ماحول پر
عقل و دانش کے بڑھتے ہوئے بوجھ سے سر اٹھانے کی دنیا کو فرصت نہیں
شہر بھی اجنبی نہیں لوگ بھی اجنبی نہیں
ہم نے یہ سوچ کر کبھی جرأت عرض کی نہیں
شکوہ بصد خلوص بھی شیوۂ دوستی نہیں
یوں تو بڑے خلوص سے لوگ ہوئے ہیں ہم سفر
راہ میں ساتھ چھوڑ دیں ان سے بعید بھی نہیں
پرسش حال کے سوا کوئی کرے بھی کیا مگر
پرسش حال دوستو طنز ہے دوستی نہیں
بیتے ہوئے خوشی کے دن بھولی ہوئی کہانیاں
آپ کو یاد ہوں تو ہوں ہم کو تو یاد بھی نہیں
نہ جانے کیوں وہ مجھے پھر بھی با وفا سا لگا
مزاج اس نے نہ پوچھا مگر سلام لیا
یہ بے رخی کا سلیقہ بھی کچھ بھلا سا لگا
غبار وقت نے کچھ یوں بدل دیئے چہرے
خود اپنا شہر بھی مجھ کو نیا نیا سا لگا
گھٹی گھٹی سی لگی رات انجمن کی فضا
چراغ جو بھی جلا کچھ بجھا بجھا سا لگا
جو ہم پہ گزری ہے شاید سبھی پہ گزری ہو
فسانہ جو بھی سنا کچھ سنا سنا سا لگا
مجال عرض تمنا کرے کوئی کیسے
جو لفظ ہونٹوں پہ آیا ڈرا ڈرا سا لگا
میں گھر سے چل کے اکیلا یہاں تک آیا ہوں
جو ہم سفر بھی ملا کچھ تھکا تھکا سا لگا
اسی کا نام ہے شائستگی و پاس وفا
پلک تک آ کے جو آنسو تھما تھما سا لگا
کچھ اس خلوص سے اس نے کہا مجھے اقبالؔ
خود اپنا نام بھی مجھ کو بڑا بڑا سا لگا
یہ بزرگوں کی امانت ہے گنوا مت دینا
وہ جو رزاق حقیقی ہے اسی سے مانگو
رزق برحق ہے کہیں اور صدا مت دینا
بھیک مانگو بھی تو بچوں سے چھپا کر مانگو
تم بھکاری ہو کہیں ان کو بتا مت دینا
صبح صادق میں بہت دیر نہیں ہے لیکن
کہیں عجلت میں چراغوں کو بجھا مت دینا
میں نے جو کچھ بھی کہا صرف محبت میں کہا
مجھ کو اس جرم محبت کی سزا مت دینا






