آپ کے پیار کا جب خیال آ گیا
یاد گزرا ہوا پھر وہ سال آ گیا
دیکھ کر مجھ کو تم نے جھکائی نظر
اور چہرے پہ زلفوں کا جال آ گیا
تم کو کہتا گیا ہوں میں جتنا حسیں
میرے شعروں میں ویسا جمال آ گیا
رات بھر اُس کے بوسے میں لیتا رہا
تیرے خط میں ترا ایک بال آ گیا
دل میں میرے حسینوں کی دنیا سے وہ
جس کی کوئی نہیں ہے مثال، آ گیا
رہنا بن تیرے مجھ کو گوارا نہیں
آ کے کہہ دے کہ عہدِ وصال آ گیا
اٹھ کے شمعیں جلاؤ، چراغاں کرو
جس کا آنا تھا لگتا محال، آ گیا
گفتگو ساری نظروں نے نظروں سے کی
لطف باتوں کا یوں بےمثال آ گیا
کائنات اُس میں ڈوبی کہ تھی ہی نہیں
اُس کی پلکوں پہ جب بھی زوال آ گیا
کس تَبَسُّم سے وہ دیکھتے تھے کہ جب
میرے ہونٹوں پہ اُن کا سوال آ گیا