آگ پانی سے ڈرتا ہوا میں ہی تھا
Poet: Mohammad Alvi By: kashif, khi
آگ پانی سے ڈرتا ہوا میں ہی تھا
چاند کی سیر کرتا ہوا میں ہی تھا
سر اٹھائے کھڑا تھا پہاڑوں پہ میں
پتی پتی بکھرتا ہوا میں ہی تھا
میں ہی تھا اس طرف زخم کھایا ہوا
اس طرف وار کرتا ہوا میں ہی تھا
جاگ اٹھا تھا صبح موت کی نیند سے
رات آئی تو مرتا ہوا میں ہی تھا
میں ہی تھا منزلوں پہ پڑا ہانپتا
راستوں میں ٹھہرتا ہوا میں ہی تھا
مجھ سے پوچھے کوئی ڈوبنے کا مزا
پانیوں میں اترتا ہوا میں ہی تھا
میں ہی تھا علویؔ کمرے میں سویا ہوا
اور گلی سے گزرتا ہوا میں ہی تھا
More Mohammad Alvi Poetry
اور بازار سے کیا لے جاؤں اور بازار سے کیا لے جاؤں
پہلی بارش کا مزا لے جاؤں
کچھ تو سوغات دوں گھر والوں کو
رات آنکھوں میں سجا لے جاؤں
گھر میں ساماں تو ہو دلچسپی کا
حادثہ کوئی اٹھا لے جاؤں
اک دیا دیر سے جلتا ہوگا
ساتھ تھوڑی سی ہوا لے جاؤں
کیوں بھٹکتا ہوں غلط راہوں میں
خواب میں اس کا پتہ لے جاؤں
روز کہتا ہے ہوا کا جھونکا
آ تجھے دور اڑا لے جاؤں
آج پھر مجھ سے کہا دریا نے
کیا ارادہ ہے بہا لے جاؤں
گھر سے جاتا ہوں تو کام آئیں گے
ایک دو اشک بچا لے جاؤں
جیب میں کچھ تو رہے گا علویؔ
لاؤ تم سب کی دعا لے جاؤں
پہلی بارش کا مزا لے جاؤں
کچھ تو سوغات دوں گھر والوں کو
رات آنکھوں میں سجا لے جاؤں
گھر میں ساماں تو ہو دلچسپی کا
حادثہ کوئی اٹھا لے جاؤں
اک دیا دیر سے جلتا ہوگا
ساتھ تھوڑی سی ہوا لے جاؤں
کیوں بھٹکتا ہوں غلط راہوں میں
خواب میں اس کا پتہ لے جاؤں
روز کہتا ہے ہوا کا جھونکا
آ تجھے دور اڑا لے جاؤں
آج پھر مجھ سے کہا دریا نے
کیا ارادہ ہے بہا لے جاؤں
گھر سے جاتا ہوں تو کام آئیں گے
ایک دو اشک بچا لے جاؤں
جیب میں کچھ تو رہے گا علویؔ
لاؤ تم سب کی دعا لے جاؤں
hania
آگ پانی سے ڈرتا ہوا میں ہی تھا آگ پانی سے ڈرتا ہوا میں ہی تھا
چاند کی سیر کرتا ہوا میں ہی تھا
سر اٹھائے کھڑا تھا پہاڑوں پہ میں
پتی پتی بکھرتا ہوا میں ہی تھا
میں ہی تھا اس طرف زخم کھایا ہوا
اس طرف وار کرتا ہوا میں ہی تھا
جاگ اٹھا تھا صبح موت کی نیند سے
رات آئی تو مرتا ہوا میں ہی تھا
میں ہی تھا منزلوں پہ پڑا ہانپتا
راستوں میں ٹھہرتا ہوا میں ہی تھا
مجھ سے پوچھے کوئی ڈوبنے کا مزا
پانیوں میں اترتا ہوا میں ہی تھا
میں ہی تھا علویؔ کمرے میں سویا ہوا
اور گلی سے گزرتا ہوا میں ہی تھا
چاند کی سیر کرتا ہوا میں ہی تھا
سر اٹھائے کھڑا تھا پہاڑوں پہ میں
پتی پتی بکھرتا ہوا میں ہی تھا
میں ہی تھا اس طرف زخم کھایا ہوا
اس طرف وار کرتا ہوا میں ہی تھا
جاگ اٹھا تھا صبح موت کی نیند سے
رات آئی تو مرتا ہوا میں ہی تھا
میں ہی تھا منزلوں پہ پڑا ہانپتا
راستوں میں ٹھہرتا ہوا میں ہی تھا
مجھ سے پوچھے کوئی ڈوبنے کا مزا
پانیوں میں اترتا ہوا میں ہی تھا
میں ہی تھا علویؔ کمرے میں سویا ہوا
اور گلی سے گزرتا ہوا میں ہی تھا
kashif
اچانک تری یاد کا سلسلہ اچانک تری یاد کا سلسلہ
اندھیرے کی دیوار بن کے گرا
ابھی کوئی سایہ نکل آئے گا
ذرا جسم کو روشنی تو دکھا
پڑا تھا درختوں تلے ٹوٹ کر
چمکتی ہوئی دھوپ کا آئنہ
کوئی اپنے گھر سے نکلتا نہیں
عجب حال ہے آج کل شہر کا
میں اس کے بدن کی مقدس کتاب
نہایت عقیدت سے پڑھتا رہا
یہ کیا آپ پھر شعر کہنے لگے
ارے یار علویؔ یہ پھر کیا ہوا
اندھیرے کی دیوار بن کے گرا
ابھی کوئی سایہ نکل آئے گا
ذرا جسم کو روشنی تو دکھا
پڑا تھا درختوں تلے ٹوٹ کر
چمکتی ہوئی دھوپ کا آئنہ
کوئی اپنے گھر سے نکلتا نہیں
عجب حال ہے آج کل شہر کا
میں اس کے بدن کی مقدس کتاب
نہایت عقیدت سے پڑھتا رہا
یہ کیا آپ پھر شعر کہنے لگے
ارے یار علویؔ یہ پھر کیا ہوا
rehan






