آہ دنیا سرائے فانی ہے
کس قدر مختصر کہانی ہے
خود کو دیتا ہوں مسکرا کے فریب
دل مگر وقف نوحہ خوانی ہے
مجھ سے ہنس بول لیں مرے ساتھی
اب کوئی دن کی زندگانی ہے
موسم گل میں وہ جو آن ملیں
ہم بھی جانیں کہ رت سہانی ہے
بے سبب تو نہیں بہے آنسو
آنسو آنسو میں اک کہانی ہے
اک سراپا کہ رنج و یاس ہیں ہم
درد دل مونس جوانی ہے
مسکراؤں میں کس طرح الطافؔ
تاک میں دور آسمانی ہے