عیدِ قرباں پہ آ گیا بکرا
ایک اودھم مچا گیا بکرا
نخرے کیا کیا دکھا گیا بکرا
مزے کیا کیا اُڑا گیا بکرا
بچے سب ناز اِس کے سہتے تھے
ناز کیا کیا اُٹھاگیا بکرا
دام پوچھے تو آ گئے چکر
دن میں تارے دکھا گیا بکرا
سارے بچے تھے اِس کے شیدائی
اور اماں کو بھا گیا بکرا
روز کھاتا تھا ڈانٹ بیگم کی
ہےکہاں سے یہ آ گیا بکرا
کیلے اس کو کھلا رہا تھا میں
ساتھ برگر اُڑا گیا بکرا
وہ جو رکھا تھا خاص میرے لئے
حلوہ پوری وہ کھا گیا بکرا
گھر کے گملے وہ توڑ کر سارے
پتے سارے چبا گیا بکرا
مجھے لگتا ہے اس کی میں میں سے
تیرا دیوان کھا گیا بکرا
مجھ سے شاعر کا حال کیا ہو گا
جس کا دیوان کھا گیا بکرا
گھاس کھائیں گے ہم مہینہ بھر
بوری آٹے کی کھا گیا بکرا
جا کے لڑتا تھا سینگ سے اپنے
سینگ میرے پھنسا گیا بکرا
بچے اب مان کر نہیں دیتے
سبق ایسا پڑھا گیا بکرا
بچے ہر وقت ڈانس کرتےہیں
ناچ ایسا سکھا گیا بکرا
مجھ کو ٹکر یہ مارتا تھا روز
کیسے کیسے ستا گیا بکرا
گالیاں دے رہے ہیں ہم سائے
ہم کو سب سےلڑا گیا بکرا
گانے گاتا تھا رات بھر ظالم
نیندیں سب کی اُڑا گیا بکرا
عید کے دن نمازِ فجر کے بعد
آہ رسی تڑا گیا بکرا
منہ دکھانے کے ہم نہیں قابل
داغ ایسا لگا گیا بکرا
کتنے افسوس کا مقام ہے یہ
ہاتھ چوروں کے آ گیا بکرا
رہ گئےچھریاں تیز کرتے ہم
چھری ہم پر چلا گیا بکرا
بے بے کرتے ہیں یاد میں اس کی
سب کو بکرا بنا گیا بکرا
شعر گوئی تھی بند مدت سے
پھر سے جاری کرا گیا بکرا