کوئی جینا ہیے یہ بھی ڈر ڈر کے
پھر بھی جیتے ہیں لوگ مر مر کے
چاند دیکھا جو اک نظر بھر کے
دل میں طوفاں اٹھے سمندر کے
جان دے دونگا خودکشی کرکے
میرے پہلو سے تم اگر سر کے
کوئی تو گوشہ گیر ہیے مجھ میں
خود کلامی کو معتبر کرکے
ایک مٹھی ہی دھوپ مل جاۓ
دشت تاریک ہیں مقدر کے
موسم درد ٹھیر جاتا ہیے
معجزے ہیں یہ دیدۀ تر کے
پھر سلگتا ہیے جسم تنہائی
برف لہجوں کو بے اثر کر کے
درد پہلو بہ پہلو سوتے ہیں
غم شکن در شکن ہیں بستر کے
کس قدر گونجتے ہیں سناٹے
جیسے نقارے غم کے لشکر کے
ہم تو صحرا نچوڑ لیتے ہیں
تم بھکاری رہے سمندر کے
صرف خوں ہی نہیں شفق میں نوید
رمز کچھ اور بھی ہیں منظر کے