اب آ گیا ہے جہاں میں تو مسکراتا جا
Poet: Ali Sardar Jafri By: talat, lhr
اب آ گیا ہے جہاں میں تو مسکراتا جا
چمن کے پھول دلوں کے کنول کھلاتا جا
عدم حیات سے پہلے عدم حیات کے بعد
یہ ایک پل ہے اسے جاوداں بناتا جا
بھٹک رہی ہے اندھیرے میں زندگی کی برات
کوئی چراغ سر رہ گزر جلاتا جا
گزر چمن سے مثال نسیم صبح بہار
گلوں کو چھیڑ کے کانٹوں کو گدگداتا جا
رہ دراز ہے اور دور شوق کی منزل
گراں ہے مرحلۂ عمر گیت گاتا جا
بلا سے بزم میں گر ذوق نغمگی کم ہے
نوائے تلخ کو کچھ تلخ تر بناتا جا
جو ہو سکے تو بدل زندگی کو خود ورنہ
نژاد نو کو طریق جنوں سکھاتا جا
دکھا کے جلوۂ فردا بنا دے دیوانہ
نئے زمانے کے رخ سے نقاب اٹھاتا جا
بہت دنوں سے دل و جاں کی محفلیں ہیں اداس
کوئی ترانہ کوئی داستاں سناتا جا
More Ali Sardar Jafri Poetry
دل کی آگ جوانی کے رخساروں کو دہکائے ہے دل کی آگ جوانی کے رخساروں کو دہکائے ہے
بہے پسینہ مکھڑے پر یا سورج پگھلا جائے ہے
من اک ننھا سا بالک ہے ہمک ہمک رہ جائے ہے
دور سے مکھ کا چاند دکھا کر کون اسے للچائے ہے
مے ہے تیری آنکھوں میں اور مجھ پہ نشہ سا طاری ہے
نیند ہے تیری پلکوں میں اور خواب مجھے دکھلائے ہے
تیرے قامت کی لرزش سے موج مے میں لرزش ہے
تیری نگہ کی مستی ہی پیمانوں کو چھلکائے ہے
تیرا درد سلامت ہے تو مرنے کی امید نہیں
لاکھ دکھی ہو یہ دنیا رہنے کی جگہ بن جائے ہے
بہے پسینہ مکھڑے پر یا سورج پگھلا جائے ہے
من اک ننھا سا بالک ہے ہمک ہمک رہ جائے ہے
دور سے مکھ کا چاند دکھا کر کون اسے للچائے ہے
مے ہے تیری آنکھوں میں اور مجھ پہ نشہ سا طاری ہے
نیند ہے تیری پلکوں میں اور خواب مجھے دکھلائے ہے
تیرے قامت کی لرزش سے موج مے میں لرزش ہے
تیری نگہ کی مستی ہی پیمانوں کو چھلکائے ہے
تیرا درد سلامت ہے تو مرنے کی امید نہیں
لاکھ دکھی ہو یہ دنیا رہنے کی جگہ بن جائے ہے
Qaiser
آئے ہم غالبؔ و اقبالؔ کے نغمات کے بعد آئے ہم غالبؔ و اقبالؔ کے نغمات کے بعد
مصحفؔ عشق و جنوں حسن کی آیات کے بعد
اے وطن خاک وطن وہ بھی تجھے دے دیں گے
بچ گیا ہے جو لہو اب کے فسادات کے بعد
نار نمرود یہی اور یہی گلزار خلیل
کوئی آتش نہیں آتش کدۂ ذات کے بعد
رام و گوتم کی زمیں حرمت انساں کی امیں
بانجھ ہو جائے گی کیا خون کی برسات کے بعد
تشنگی ہے کہ بجھائے نہیں بجھتی سردارؔ
بڑھ گئی کوثر و تسنیم کی سوغات کے بعد
مصحفؔ عشق و جنوں حسن کی آیات کے بعد
اے وطن خاک وطن وہ بھی تجھے دے دیں گے
بچ گیا ہے جو لہو اب کے فسادات کے بعد
نار نمرود یہی اور یہی گلزار خلیل
کوئی آتش نہیں آتش کدۂ ذات کے بعد
رام و گوتم کی زمیں حرمت انساں کی امیں
بانجھ ہو جائے گی کیا خون کی برسات کے بعد
تشنگی ہے کہ بجھائے نہیں بجھتی سردارؔ
بڑھ گئی کوثر و تسنیم کی سوغات کے بعد
Rehan
میں جہاں تم کو بلاتا ہوں وہاں تک آؤ میں جہاں تم کو بلاتا ہوں وہاں تک آؤ
میری نظروں سے گزر کر دل و جاں تک آؤ
پھر یہ دیکھو کہ زمانے کی ہوا ہے کیسی
ساتھ میرے مرے فردوس جواں تک آؤ
حوصلہ ہو تو اڑو میرے تصور کی طرح
میری تخئیل کے گلزار جناں تک آؤ
تیغ کی طرح چلو چھوڑ کے آغوش نیام
تیر کی طرح سے آغوش کماں تک آؤ
پھول کے گرد پھرو باغ میں مانند نسیم
مثل پروانہ کسی شمع تپاں تک آؤ
لو وہ صدیوں کے جہنم کی حدیں ختم ہوئیں
اب ہے فردوس ہی فردوس جہاں تک آؤ
چھوڑ کر وہم و گماں حسن یقیں تک پہنچو
پر یقیں سے بھی کبھی وہم و گماں تک آؤ
اسی دنیا میں دکھا دیں تمہیں جنت کی بہار
شیخ جی تم بھی ذرا کوئے بتاں تک آؤ
میری نظروں سے گزر کر دل و جاں تک آؤ
پھر یہ دیکھو کہ زمانے کی ہوا ہے کیسی
ساتھ میرے مرے فردوس جواں تک آؤ
حوصلہ ہو تو اڑو میرے تصور کی طرح
میری تخئیل کے گلزار جناں تک آؤ
تیغ کی طرح چلو چھوڑ کے آغوش نیام
تیر کی طرح سے آغوش کماں تک آؤ
پھول کے گرد پھرو باغ میں مانند نسیم
مثل پروانہ کسی شمع تپاں تک آؤ
لو وہ صدیوں کے جہنم کی حدیں ختم ہوئیں
اب ہے فردوس ہی فردوس جہاں تک آؤ
چھوڑ کر وہم و گماں حسن یقیں تک پہنچو
پر یقیں سے بھی کبھی وہم و گماں تک آؤ
اسی دنیا میں دکھا دیں تمہیں جنت کی بہار
شیخ جی تم بھی ذرا کوئے بتاں تک آؤ
zawar
اک صبح ہے جو ہوئی نہیں ہے اک صبح ہے جو ہوئی نہیں ہے
اک رات ہے جو کٹی نہیں ہے
مقتولوں کا قحط پڑ نہ جائے
قاتل کی کہیں کمی نہیں ہے
ویرانوں سے آ رہی ہے آواز
تخلیق جنوں رکی نہیں ہے
ہے اور ہی کاروبار مستی
جی لینا تو زندگی نہیں ہے
ساقی سے جو جام لے نہ بڑھ کر
وہ تشنگی تشنگی نہیں ہے
عاشق کشی و فریب کاری
یہ شیوۂ دلبری نہیں ہے
بھوکوں کی نگاہ میں ہے بجلی
یہ برق ابھی گری نہیں ہے
دل میں جو جلائی تھی کسی نے
وہ شمع طرب بجھی نہیں ہے
اک دھوپ سی ہے جو زیر مژگاں
وہ آنکھ ابھی اٹھی نہیں ہے
ہیں کام بہت ابھی کہ دنیا
شائستۂ آدمی نہیں ہے
ہر رنگ کے آ چکے ہیں فرعون
لیکن یہ جبیں جھکی نہیں ہے
اک رات ہے جو کٹی نہیں ہے
مقتولوں کا قحط پڑ نہ جائے
قاتل کی کہیں کمی نہیں ہے
ویرانوں سے آ رہی ہے آواز
تخلیق جنوں رکی نہیں ہے
ہے اور ہی کاروبار مستی
جی لینا تو زندگی نہیں ہے
ساقی سے جو جام لے نہ بڑھ کر
وہ تشنگی تشنگی نہیں ہے
عاشق کشی و فریب کاری
یہ شیوۂ دلبری نہیں ہے
بھوکوں کی نگاہ میں ہے بجلی
یہ برق ابھی گری نہیں ہے
دل میں جو جلائی تھی کسی نے
وہ شمع طرب بجھی نہیں ہے
اک دھوپ سی ہے جو زیر مژگاں
وہ آنکھ ابھی اٹھی نہیں ہے
ہیں کام بہت ابھی کہ دنیا
شائستۂ آدمی نہیں ہے
ہر رنگ کے آ چکے ہیں فرعون
لیکن یہ جبیں جھکی نہیں ہے
imtiaz
وہی ہے وحشت وہی ہے نفرت آخر اس کا کیا ہے سبب وہی ہے وحشت وہی ہے نفرت آخر اس کا کیا ہے سبب
انساں انساں بہت رٹا ہے انساں انساں بنے گا کب
وید اپنیشد پرزے پرزے گیتا قرآں ورق ورق
رام و کرشن و گوتم و یزداں زخم رسیدہ سب کے سب
اب تک ایسا ملا نہ کوئی دل کی پیاس بجھاتا جو
یوں میخانہ چشم بہت ہیں بہت ہیں یوں تو ساقی لب
جس کی تیغ ہے دنیا اس کی جس کی لاٹھی اس کی بھینس
سب قاتل ہیں سب مقتول ہیں سب مظلوم ہیں ظالم سب
خنجر خنجر قاتل ابرو دلبر ہاتھ مسیحا ہونٹ
لہو لہو ہے شام تمنا آنسو آنسو صبح طرب
دیکھیں دن پھرتے ہیں کب تک دیکھیں پھر کب ملتے ہیں
دل سے دل آنکھوں سے آنکھیں ہاتھ سے ہاتھ اور لب سے لب
زخمی سرحد زخمی قومیں زخمی انساں زخمی ملک
حرف حق کی صلیب اٹھائے کوئی مسیح تو آئے اب
انساں انساں بہت رٹا ہے انساں انساں بنے گا کب
وید اپنیشد پرزے پرزے گیتا قرآں ورق ورق
رام و کرشن و گوتم و یزداں زخم رسیدہ سب کے سب
اب تک ایسا ملا نہ کوئی دل کی پیاس بجھاتا جو
یوں میخانہ چشم بہت ہیں بہت ہیں یوں تو ساقی لب
جس کی تیغ ہے دنیا اس کی جس کی لاٹھی اس کی بھینس
سب قاتل ہیں سب مقتول ہیں سب مظلوم ہیں ظالم سب
خنجر خنجر قاتل ابرو دلبر ہاتھ مسیحا ہونٹ
لہو لہو ہے شام تمنا آنسو آنسو صبح طرب
دیکھیں دن پھرتے ہیں کب تک دیکھیں پھر کب ملتے ہیں
دل سے دل آنکھوں سے آنکھیں ہاتھ سے ہاتھ اور لب سے لب
زخمی سرحد زخمی قومیں زخمی انساں زخمی ملک
حرف حق کی صلیب اٹھائے کوئی مسیح تو آئے اب
imad
اب آ گیا ہے جہاں میں تو مسکراتا جا اب آ گیا ہے جہاں میں تو مسکراتا جا
چمن کے پھول دلوں کے کنول کھلاتا جا
عدم حیات سے پہلے عدم حیات کے بعد
یہ ایک پل ہے اسے جاوداں بناتا جا
بھٹک رہی ہے اندھیرے میں زندگی کی برات
کوئی چراغ سر رہ گزر جلاتا جا
گزر چمن سے مثال نسیم صبح بہار
گلوں کو چھیڑ کے کانٹوں کو گدگداتا جا
رہ دراز ہے اور دور شوق کی منزل
گراں ہے مرحلۂ عمر گیت گاتا جا
بلا سے بزم میں گر ذوق نغمگی کم ہے
نوائے تلخ کو کچھ تلخ تر بناتا جا
جو ہو سکے تو بدل زندگی کو خود ورنہ
نژاد نو کو طریق جنوں سکھاتا جا
دکھا کے جلوۂ فردا بنا دے دیوانہ
نئے زمانے کے رخ سے نقاب اٹھاتا جا
بہت دنوں سے دل و جاں کی محفلیں ہیں اداس
کوئی ترانہ کوئی داستاں سناتا جا
چمن کے پھول دلوں کے کنول کھلاتا جا
عدم حیات سے پہلے عدم حیات کے بعد
یہ ایک پل ہے اسے جاوداں بناتا جا
بھٹک رہی ہے اندھیرے میں زندگی کی برات
کوئی چراغ سر رہ گزر جلاتا جا
گزر چمن سے مثال نسیم صبح بہار
گلوں کو چھیڑ کے کانٹوں کو گدگداتا جا
رہ دراز ہے اور دور شوق کی منزل
گراں ہے مرحلۂ عمر گیت گاتا جا
بلا سے بزم میں گر ذوق نغمگی کم ہے
نوائے تلخ کو کچھ تلخ تر بناتا جا
جو ہو سکے تو بدل زندگی کو خود ورنہ
نژاد نو کو طریق جنوں سکھاتا جا
دکھا کے جلوۂ فردا بنا دے دیوانہ
نئے زمانے کے رخ سے نقاب اٹھاتا جا
بہت دنوں سے دل و جاں کی محفلیں ہیں اداس
کوئی ترانہ کوئی داستاں سناتا جا
talat







