اب اتنی سادگی لائیں کہاں سے
زمیں کی خیر مانگیں آسماں سے
اگر چاہیں تو وہ دیوار کر دیں
ہمیں اب کچھ نہیں کہنا زباں سے
ستارہ ہی نہیں جب ساتھ دیتا
تو کشتی کام لے کیا بادباں سے
بھٹکنے سے ملے فرصت تو پوچھیں
پتا منزل کا میر کارواں سے
توجہ برق کی حاصل رہی ہے
سو ہے آزاد فکر آشیاں سے
ہوا کو رازداں ہم نے بنایا
اور اب ناراض خوشبو کے بیاں سے
ضروری ہو گئی ہے دل کی زینت
مکیں پہچانے جاتے ہیں مکاں سے
فنا فی العشق ہونا چاہتے تھے
مگر فرصت نہ تھی کار جہاں سے
وگرنہ فصل گل کی قدر کیا تھی
بڑی حکمت ہے وابستہ خزاں سے
کسی نے بات کی تھی ہنس کے شاید
زمانے بھر سے ہیں ہم خود گماں سے
میں اک اک تیر پہ خود ڈھال بنتی
اگر ہوتا وہ دشمن کی کماں سے
جو سبزہ دیکھ کر خیمے لگائیں
انہیں تکلیف کیوں پہنچے خزاں سے
جو اپنے پیڑ جلتے چھوڑ جائیں
انہیں کیا حق کہ روٹھیں باغباں سے