اب انتہا کا ترے ذکر میں اثر آیا
Poet: Shad Azimabadi By: beenish, khi
اب انتہا کا ترے ذکر میں اثر آیا
کہ منہ سے نام لیا دل میں تو اتر آیا
بہت دنوں پہ مری چشم میں نظر آیا
اے اشک خیر تو ہے، تو کدھر کدھر آیا
ہزار شکر کہ اس دل میں تو نظر آیا
یہ نقشہ صفحۂ خالی پہ جلد اتر آیا
بشر حباب کی صورت ہمیں نظر آیا
بھری جو قطرہ کے اندر ہوا ابھر آیا
زباں پہ آتا ہے نالہ بھی سو کرشموں سے
کہاں سے آپ کے انداز کا اثر آیا
عدم میں عیش ہے چلتا ہوں میں بھی لے اے دل
جہاں میں جتنے مصیبت کے دن تھے بھر آیا
لکھے کو روئیے اب تابہ حشر تربت میں
کہ میرے مرنے پہ خط لے کے نامہ بر آیا
پڑا ہے شب سے یوں ہی اب تلک نہ لی کروٹ
دل ستم زدہ اس کی گلی سے مر آیا
ہزار شکر خدا کا یہی غنیمت ہے
نہ خیر آیا مرے دل کو اور شر آیا
ریا تو دل میں تھی ماتھے پہ اب ہے اس کا نشاں
کہاں کا داغ کہاں دفعتاً ابھر آیا
مقیم دل ہے ڈنواں ڈول رہ کے اب ایماں
بتوں کے قہر سے چھوٹا خدا کے گھر آیا
ہمارے پائے طلب نے بڑی مہم سر کی
کہ کٹ کے سامنے قاتل کے اپنا سر آیا
شراب پی کے میں پہنچا فلک پہ اے ساقی
کہاں سے ان کئی قطروں میں یہ اثر آیا
وہ چاہے بد کہے قاصد بتوں کو یا مجھ کو
حرم میں چین سے ایمان جا کے دھر آیا
لحد میں شانہ ہلا کر یہ موت کہتی ہے
لے اب تو چونک مسافر کہ اپنے گھر آیا
ہزار شکر ہوا آفتاب حشر طلوع
بڑی تو لاج رہی یہ کہ تو نظر آیا
گواہیاں ہوئیں اعضا کی حشر میں مقبول
وہ پاک ہو گئے الزام میرے سر آیا
ہجوم غم نے سکھانے کی لاکھ کوشش کی
ہمیں تو آہ بھی کرنا نہ عمر بھر آیا
جو چند دن میں ہوئے ذی کمال کون ہیں شادؔ
ہمیں تو شعر کا کہنا نہ عمر بھر آیا
اسی کو شعر سمجھتے ہیں شادؔ اہل مذاق
ادھر پڑھا کہ دلوں میں ادھر اتر آیا
زندگی چھوڑ دے پیچھا مرا میں باز آیا
مژدہ اے روح تجھے عشق سا دم ساز آیا
نکبت فقر گئی شاہ سرافراز آیا
پاس اپنے جو نیا کوئی فسوں ساز آیا
ہو رہے اس کے ہمیں یاد ترا ناز آیا
پیتے پیتے تری اک عمر کٹی اس پر بھی
پینے والے تجھے پینے کا نہ انداز آیا
دل ہو یا روح و جگر کان کھڑے سب کے ہوئے
عشق آیا کہ کوئی مفسدہ پرداز آیا
لے رہا ہے درمے خانہ پہ سن گن واعظ
رندو ہشیار کہ اک مفسدہ پرداز آیا
دل مجبور پہ اس طرح سے پہنچی وہ نگاہ
جیسے عصفور پہ پر تول کے شہباز آیا
کیوں ہے خاموش دلا کس سے یہ سرگوشی ہے
موت آئی کہ ترے واسطے ہم راز آیا
دیکھ لو اشک تواتر کو نہ پوچھو مرا حال
چپ رہو چپ رہو اس بزم میں غماز آیا
اس خرابے میں تو ہم دونوں ہیں یکساں ساقی
ہم کو پینے تجھے دینے کا نہ انداز آیا
نالہ آتا نہیں کن رس ہے فقط اے بلبل
مرد سیاح ہوں سن کر تری آواز آیا
دل جو گھبرائے قفس میں تو ذرا پر کھولوں
زور اتنا بھی نہ اے حسرت پرواز آیا
دیکھیے نالۂ دل جا کے لگائے کس سے
جس کا کھٹکا تھا وہی مفسدہ پرداز آیا
مدعی بستہ زباں کیوں نہ ہو سن کر مرے شعر
کیا چلے سحر کی جب صاحب اعجاز آیا
رند پھیلائے ہیں چلو کو تکلف کیسا
ساقیا ڈھال بھی دے جام خدا ساز آیا
نہ گیا پر نہ گیا شمع کا رونا کسی حال
گو کہ پروانۂ مرحوم سا دم ساز آیا
ایک چپکی میں گلو تم نے نکالے سب کام
غمزہ آیا نہ کرشمہ نہ تمہیں ناز آیا
دھیان رہ رہ کے ادھر کا مجھے دلواتا ہے
دم نہ آیا مرے تن میں کوئی دم ساز آیا
کس طرح موت کو سمجھوں نہ حیات ابدی
آپ آئے کہ کوئی صاحب اعجاز آیا
بے انیسؔ اب چمن نظم ہے ویراں اے شادؔ
ہائے ایسا نہ کوئی زمزمہ پرداز آیا
کہ منہ سے نام لیا دل میں تو اتر آیا
بہت دنوں پہ مری چشم میں نظر آیا
اے اشک خیر تو ہے، تو کدھر کدھر آیا
ہزار شکر کہ اس دل میں تو نظر آیا
یہ نقشہ صفحۂ خالی پہ جلد اتر آیا
بشر حباب کی صورت ہمیں نظر آیا
بھری جو قطرہ کے اندر ہوا ابھر آیا
زباں پہ آتا ہے نالہ بھی سو کرشموں سے
کہاں سے آپ کے انداز کا اثر آیا
عدم میں عیش ہے چلتا ہوں میں بھی لے اے دل
جہاں میں جتنے مصیبت کے دن تھے بھر آیا
لکھے کو روئیے اب تابہ حشر تربت میں
کہ میرے مرنے پہ خط لے کے نامہ بر آیا
پڑا ہے شب سے یوں ہی اب تلک نہ لی کروٹ
دل ستم زدہ اس کی گلی سے مر آیا
ہزار شکر خدا کا یہی غنیمت ہے
نہ خیر آیا مرے دل کو اور شر آیا
ریا تو دل میں تھی ماتھے پہ اب ہے اس کا نشاں
کہاں کا داغ کہاں دفعتاً ابھر آیا
مقیم دل ہے ڈنواں ڈول رہ کے اب ایماں
بتوں کے قہر سے چھوٹا خدا کے گھر آیا
ہمارے پائے طلب نے بڑی مہم سر کی
کہ کٹ کے سامنے قاتل کے اپنا سر آیا
شراب پی کے میں پہنچا فلک پہ اے ساقی
کہاں سے ان کئی قطروں میں یہ اثر آیا
وہ چاہے بد کہے قاصد بتوں کو یا مجھ کو
حرم میں چین سے ایمان جا کے دھر آیا
لحد میں شانہ ہلا کر یہ موت کہتی ہے
لے اب تو چونک مسافر کہ اپنے گھر آیا
ہزار شکر ہوا آفتاب حشر طلوع
بڑی تو لاج رہی یہ کہ تو نظر آیا
گواہیاں ہوئیں اعضا کی حشر میں مقبول
وہ پاک ہو گئے الزام میرے سر آیا
ہجوم غم نے سکھانے کی لاکھ کوشش کی
ہمیں تو آہ بھی کرنا نہ عمر بھر آیا
جو چند دن میں ہوئے ذی کمال کون ہیں شادؔ
ہمیں تو شعر کا کہنا نہ عمر بھر آیا
اسی کو شعر سمجھتے ہیں شادؔ اہل مذاق
ادھر پڑھا کہ دلوں میں ادھر اتر آیا
Jab Kuch Gharaz Nhe Tou Zamane Se Kya Gharaz
Phele Kai Hath Muft Me Hungay Zaleel Hum
Mehrum Tere Dar Se Phiregi Dua Gharaz
Dunya Me Kuch Tou Rooh Ko Is Jism Se Hai Kaam
Milta Hai Varna Kon Kisi Se Bila Gharaz
Vasal O Firaq O Hasrat O Umeed Se Khula
Hamara Hai Har Ek Baqa Ki Fana Gharaz
Dekha To Tha Yahi Shab E Hasrat O Alam
Majbur Ho Kai Tark Kea Mudaa Gharaz
Ilzam Ta Ke Sar Pe Kisi Tarah Ka Na Ho
Ai "Shad" Dhudti Hai Bahane Qaza Gharaz






