اب بھی آنکھوں میں خواب ہیں باقی
یعنی اب بھی عذاب ہیں باقی
اُن سوالوں سے خوف آتا ہے
جن کے اب بھی جواب ہیں باقی
ایک حاکم کو چھوڑ کر یارو
سب کی آنکھیں خراب ہیں باقی
کون لے گا بھلا حساب کتاب
سب کے اپنے حساب ہیں باقی
حضرتِ مولوی فرشتے ہیں
سارے انساں خراب ہیں باقی
کل کی آغوش میں ابھی شاہ رخ
کتنے ہی انقلاب ہیں باقی