اب بھی تیری شوخ طبیعت کم تو نہیں
ہماری بھی یہاں خاصیت کم تو نہیں
اتنا آسان بھی نہیں ہے گِلے شکوے بھلانا
تو نے جو کی ہے ہم پہ عنایت کم تو نہیں
چند گِلے شکوے میں بھول تو گیا ہوں
مگر اب بھی تم سے شکایت کم تو نہیں
تُو جو بس گیا اہلِ ثروت کی نگری میں
ہماری بھی یہاں راحت کم تو نہیں
تیرا نام تو نہیں لے سکتا میری جان
دل میں مگر چاہت کم تو نہیں
دلِ ارسلؔان آج مست و رقصاں ہے
بزمِ نشاط میں آج کیفیت کم تو نہیں