اب تری یاد سے وحشت نہیں ہوتی مجھ کو
زخم کھلتے ہیں اذیت نہیں ہوتی مجھ کو
اب کوئی آئے چلا جائے میں خوش رہتا ہوں
اب کسی شخص کی عادت نہیں ہوتی مجھ کو
ایسا بدلا ہوں ترے شہر کا پانی پی کر
جھوٹ بولوں تو ندامت نہیں ہوتی مجھ کو
ہے امانت میں خیانت سو کسی کی خاطر
کوئی مرتا ہے تو حیرت نہیں ہوتی مجھ کو
تو جو بدلے تری تصویر بدل جاتی ہے
رنگ بھرنے میں سہولت نہیں ہوتی مجھ کو
اکثر اوقات میں تعبیر بتا دیتا ہوں
بعض اوقات اجازت نہیں ہوتی مجھ کو
اتنا مصروف ہوں جینے کی ہوس میں شاہدؔ
سانس لینے کی بھی فرصت نہیں ہوتی مجھ کو