اب تو منہ سے بول مجھ کو دیکھ دن بھر ہو گیا
اے بت خاموش کیا سچ مچ کا پتھر ہو گیا
اب تو چپ ہو باغ میں نالوں سے محشر ہو گیا
یہ بھی اے بلبل کوئی صیاد کا گھر ہو گیا
التماس قتل پر کہتے ہو فرصت ہی نہیں
اب تمہیں اتنا غرور اللہ اکبر ہو گیا
محفل دشمن میں جو گزری وہ میرے دل سے پوچھ
ہر اشارہ جنبش ابرو کا خنجر ہو گیا
آشیانے کا بتائیں کیا پتہ خانہ بدوش
چار تنکے رکھ لئے جس شاخ پر گھر ہو گیا
حرص تو دیکھو فلک بھی مجھ پہ کرتا ہے ستم
کوئی پوچھے تو بھی کیا ان کے برابر ہو گیا
سوختہ دل میں نہ ملتا تیر کو خوں اے قمرؔ
یہ بھی کچھ مہماں کی قسمت سے میسر ہو گیا