Add Poetry

اب تو یہ بھی نہیں رہا احساس

Poet: Jigar Moradabadi By: fahad, isl
Ab To Yeh Bhi Nahi Raha Ehsas

اب تو یہ بھی نہیں رہا احساس
درد ہوتا ہے یا نہیں ہوتا

عشق جب تک نہ کر چکے رسوا
آدمی کام کا نہیں ہوتا

ٹوٹ پڑتا ہے دفعتاً جو عشق
بیشتر دیر پا نہیں ہوتا

وہ بھی ہوتا ہے ایک وقت کہ جب
ماسوا ماسوا نہیں ہوتا

ہائے کیا ہو گیا طبیعت کو
غم بھی راحت فزا نہیں ہوتا

دل ہمارا ہے یا تمہارا ہے
ہم سے یہ فیصلہ نہیں ہوتا

جس پہ تیری نظر نہیں ہوتی
اس کی جانب خدا نہیں ہوتا

میں کہ بے زار عمر بھر کے لیے
دل کہ دم بھر جدا نہیں ہوتا

وہ ہمارے قریب ہوتے ہیں
جب ہمارا پتا نہیں ہوتا

دل کو کیا کیا سکون ہوتا ہے
جب کوئی آسرا نہیں ہوتا

ہو کے اک بار سامنا ان سے
پھر کبھی سامنا نہیں ہوتا

Rate it:
Views: 1935
10 Jan, 2017
More Jigar Moradabadi Poetry
اے حسن یار شرم یہ کیا انقلاب ہے اے حسن یار شرم یہ کیا انقلاب ہے
تجھ سے زیادہ درد ترا کامیاب ہے
عاشق کی بے دلی کا تغافل نہیں جواب
اس کا بس ایک جوش محبت جواب ہے
تیری عنایتیں کہ نہیں نذر جاں قبول
تیری نوازشیں کہ زمانہ خراب ہے
اے حسن اپنی حوصلہ افزائیاں تو دیکھ
مانا کہ چشم شوق بہت بے حجاب ہے
میں عشق بے نیاز ہوں تم حسن بے پناہ
میرا جواب ہے نہ تمہارا جواب ہے
مے خانہ ہے اسی کا یہ دنیا اسی کی ہے
جس تشنہ لب کے ہاتھ میں جام شراب ہے
اس سے دل تباہ کی روداد کیا کہوں
جو یہ نہ سن سکے کہ زمانہ خراب ہے
اے محتسب نہ پھینک مرے محتسب نہ پھینک
ظالم شراب ہے ارے ظالم شراب ہے
اپنے حدود سے نہ بڑھے کوئی عشق میں
جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے
وہ لاکھ سامنے ہوں مگر اس کا کیا علاج
دل مانتا نہیں کہ نظر کامیاب ہے
میری نگاہ شوق بھی کچھ کم نہیں مگر
پھر بھی ترا شباب ترا ہی شباب ہے
مانوس اعتبار کرم کیوں کیا مجھے
اب ہر خطائے شوق اسی کا جواب ہے
میں اس کا آئینہ ہوں وہ ہے میرا آئینہ
میری نظر سے اس کی نظر کامیاب ہے
تنہائی فراق کے قربان جائیے
میں ہوں خیال یار ہے چشم پر آب ہے
سرمایۂ فراق جگرؔ آہ کچھ نہ پوچھ
اب جان ہے سو اپنے لیے خود عذاب ہے
سلمان علی
آنکھوں میں بس کے دل میں سما کر چلے گئے آنکھوں میں بس کے دل میں سما کر چلے گئے
خوابیدہ زندگی تھی جگا کر چلے گئے
حسن ازل کی شان دکھا کر چلے گئے
اک واقعہ سا یاد دلا کر چلے گئے
چہرے تک آستین وہ لا کر چلے گئے
کیا راز تھا کہ جس کو چھپا کر چلے گئے
رگ رگ میں اس طرح وہ سما کر چلے گئے
جیسے مجھی کو مجھ سے چرا کر چلے گئے
میری حیات عشق کو دے کر جنون شوق
مجھ کو تمام ہوش بنا کر چلے گئے
سمجھا کے پستیاں مرے اوج کمال کی
اپنی بلندیاں وہ دکھا کر چلے گئے
اپنے فروغ حسن کی دکھلا کے وسعتیں
میرے حدود شوق بڑھا کر چلے گئے
ہر شے کو میری خاطر ناشاد کے لیے
آئینۂ جمال بنا کر چلے گئے
آئے تھے دل کی پیاس بجھانے کے واسطے
اک آگ سی وہ اور لگا کر چلے گئے
آئے تھے چشم شوق کی حسرت نکالنے
سر تا قدم نگاہ بنا کر چلے گئے
اب کاروبار عشق سے فرصت مجھے کہاں
کونین کا وہ درد بڑھا کر چلے گئے
شکر کرم کے ساتھ یہ شکوہ بھی ہو قبول
اپنا سا کیوں نہ مجھ کو بنا کر چلے گئے
لب تھرتھرا کے رہ گئے لیکن وہ اے جگرؔ
جاتے ہوئے نگاہ ملا کر چلے گئے
لاریب علی
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets