آج کیوں نہ ایک غزل کسی کے نام ہو جائے
شاید اس طرح اپنی شہرت سر عام ہو جائے
اپنا یہ انداز بھی مشہور ہے دوستوں میں
بات کسی سے کروں اور کسی کو سلام ہو جائے
ایسے لوگوں سے ہم دوستی نہیں کرتے
جن کا کردار ایک بار بدنام ہو جائے
ایسی ترچھی نظروں سے نہ دیکھو مجھے
کہیں آغاز سے پہلے محبت کا نہ انجام ہو جائے
بہت بیجا کھا لیا ریڈیو ٹی وی والوں کا اصغر
زندگی میں اب کیوں نہ تھوڑا آرام ہو جائے