Add Poetry

اب حال اپنا اس کے ہے دل خواہ

Poet: میر تقی میر By: Rabi, Lahore

اب حال اپنا اس کے ہے دل خواہ
کیا پوچھتے ہو الحمدللہ

مر جاؤ کوئی پروا نہیں ہے
کتنا ہے مغرور اللہ اللہ

پیر مغاں سے بے اعتقادی
استغفر اللہ استغفر اللہ

کہتے ہیں اس کے تو منہ لگے گا
ہو یوں ہی یا رب جوں ہے یہ افواہ

حضرت سے اس کی جانا کہاں ہے
اب مر رہے گا یاں بندہ درگاہ

سب عقل کھوئے ہے راہ محبت
ہو خضر دل میں کیسا ہی گمراہ

مجرم ہوئے ہم دل دے کے ورنہ
کس کو کسو سے ہوتی نہیں چاہ

کیا کیا نہ ریجھیں تم نے پچائیں
اچھا رجھایا اے مہرباں آہ

گزرے ہے دیکھیں کیوں کر ہماری
اس بے وفا سے نے رسم نے راہ

تھی خواہش دل رکھنا حمائل
گردن میں اس کی ہر گاہ و بیگاہ

اس پر کہ تھا وہ شہ رگ سے اقرب
ہرگز نہ پہنچا یہ دست کوتاہ

ہے ماسوا کیا جو میرؔ کہیے
آگاہ سارے اس سے ہیں آگاہ

جلوے ہیں اس کے شانیں ہیں اس کی
کیا روز کیا خور کیا رات کیا ماہ

ظاہر کہ باطن اول کہ آخر
اللہ اللہ اللہ اللہ

Rate it:
Views: 3434
14 Oct, 2021
Related Tags on Mir Taqi Mir Poetry
Load More Tags
More Mir Taqi Mir Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets