عشق میں تاب کہاں ہجر گواراہ کر لے
عطا وہ چشم ہو، جو تیرا نظارہ کر لے
پھرسےاسلام کےسورج کو چمکتاکرلے
ذرہء خاک عرب پھر سے ستارہ کر لے
پھرسےموجوںکوسمندرمیںسمودےیارب
پھرسے بھٹکے ہوءےراہور کو ہمارا کر لے
کیسےگرداب میں کشتی مری آ پہنچی ہے
کر کرم، بیچ سمندر میں کنارہ کر لے
تو گلستان کرے، یا مجھے صحرا کر دے
چاہے اک بار کرے، چاہے دوبارہ کر لے
اک میری عرض تمنا میرے مولا سن لے
اب مجھے سفر مدینہ کا اشارہ کر لے