وہ مجھے ستانے کے منصوبے تیار کرتا ہے
ایک بار نہیں وہ ایسا بار بار کرتا ہے
جو بھی اس کی بھلائی کا سوچتا ہے
وہ اسے دشمنوں میں شمار کرتا ہے
جسے چڑی مار کہتے تھے ہم سبھی
سنا ہے اب وہ شیروں کا شکار کرتا ہے
جب کوئی نہیں سنتا باتیں اس کی
پھر کچھ دن خاموشی اختیار کرتا ہے
اوروں کی خاطر جو کھڈے کھودے تھے
اب دن رات انہیں ہموار کرتا ہے
بڑا شریر ہوگیا ہے مجھ سے بچھڑ کر
اب لوگوں کو میرے بارے ہوشیار کرتا ہے