اب کے سفر ہی اور تھا‘
Poet: Amjad Islam Amjad By: sumera ataria, GUDDU
اب کے سفر ہی اور تھا‘ اور ہی کچھ سراب تھے
دشتِ طلب میں جا بجا‘ سنگِ گرانِ خواب تھے
حشر کے دن کا غلغلہ‘ شہر کے بام و دَر میں تھا
نگلے ہوئے سوال تھے‘ اُگلے ہوئے جواب تھے
اب کے برس بہار کی‘ رُت بھی تھی اِنتظار کی
لہجوں میں سیلِ درد تھا‘ آنکھوں میں اضطراب تھے
خوابوں کے چاند ڈھل گئے تاروں کے دم نکل گئے
پھولوں کے ہاتھ جل گئے‘ کیسے یہ آفتاب تھے
سیل کی رہگزر ہوئے‘ ہونٹ نہ پھر بھی تر ہوئے
کیسی عجیب پیاس تھی‘ کیسے عجب سحاب تھے
عمر اسی تضاد میں‘ رزقِ غبار ہو گئی
جسم تھا اور عذاب تھے‘ آنکھیں تھیں اور خواب تھے
صبح ہوئی تو شہر کے‘ شور میں یوں بِکھر گئے
جیسے وہ آدمی نہ تھے‘ نقش و نگارِ آب تھے
آنکھوں میں خون بھر گئے‘ رستوں میں ہی بِکھر گئے
آنے سے قبل مر گئے‘ ایسے بھی انقلاب تھے
ساتھ وہ ایک رات کا‘ چشم زدن کی بات تھا
پھر نہ وہ التفات تھا‘ پھر نہ وہ اجتناب تھے
ربط کی بات اور ہے‘ ضبط کی بات اور ہے
یہ جو فشارِ خاک ہے‘ اِس میں کبھی گلاب تھے
اَبر برس کے کھُل گئے‘ جی کے غبار دُھل گئے
آنکھ میںرُونما ہوئے‘ شہر جو زیرِ آب تھے
درد کی رہگزار میں‘ چلتے تو کِس خمار میں
چشم کہ بے نگاہ تھی‘ ہونٹ کہ بے خطاب تھے
اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کے گھر جانا ہے
اس تک آتی ہے تو ہر چیز ٹھہر جاتی ہے
جیسے پانا ہی اسے اصل میں مر جانا ہے
بول اے شام سفر رنگ رہائی کیا ہے
دل کو رکنا ہے کہ تاروں کو ٹھہر جانا ہے
کون ابھرتے ہوئے مہتاب کا رستہ روکے
اس کو ہر طور سوئے دشت سحر جانا ہے
میں کھلا ہوں تو اسی خاک میں ملنا ہے مجھے
وہ تو خوشبو ہے اسے اگلے نگر جانا ہے
وہ ترے حسن کا جادو ہو کہ میرا غم دل
ہر مسافر کو کسی گھاٹ اتر جانا ہے
دھوپ آنکھوں تک آ جائے تو خواب بکھرنے لگتے ہیں
انسانوں کے روپ میں جس دم سائے بھٹکیں سڑکوں پر
خوابوں سے دل چہروں سے آئینے ڈرنے لگتے ہیں
کیا ہو جاتا ہے ان ہنستے جیتے جاگتے لوگوں کو
بیٹھے بیٹھے کیوں یہ خود سے باتیں کرنے لگتے ہیں
عشق کی اپنی ہی رسمیں ہیں دوست کی خاطر ہاتھوں میں
جیتنے والے پتے بھی ہوں پھر بھی ہرنے لگتے ہیں
دیکھے ہوئے وہ سارے منظر نئے نئے دکھلائی دیں
ڈھلتی عمر کی سیڑھی سے جب لوگ اترنے لگتے ہیں
بیداری آسان نہیں ہے آنکھیں کھلتے ہی امجدؔ
قدم قدم ہم سپنوں کے جرمانے بھرنے لگتے ہیں
ظلم ہوتا ہے کہیں اور کہیں دیکھتے ہیں
تیر آیا تھا جدھر سے یہ مرے شہر کے لوگ
کتنے سادا ہیں کہ مرہم بھی وہیں دیکھتے ہیں
کیا ہوا وقت کا دعویٰ کہ ہر اک اگلے برس
ہم اسے اور حسیں اور حسیں دیکھتے ہیں
اس گلی میں ہمیں یوں ہی تو نہیں دل کی تلاش
جس جگہ کھوئے کوئی چیز وہیں دیکھتے ہیں
شاید اس بار ملے کوئی بشارت امجدؔ
آئیے پھر سے مقدر کی جبیں دیکھتے ہیں







