اب کے یہ کیسی برسات ہوئ
کہ ادھوری ہر ایک بات رہی
نہ وہ رونقیں نہ تھیں شوخیاں
چپ چاپ سے مینہ برسے گئ
رم جھم رم جھم بر سات میں
گہری خاموشی اور تھی تنہائ
دل کو عزیز جو احباب تھے
ہم مکتب جن سے تھی شناسائ
وقت کی رفتار میں کہیں بہہ گۓ
اک اک دریچۀماضی کھولتی گئ
ٹپ ٹپ ٹپ ٹپ برستی ہر بوند
سنگ اپنے مجھکو بھی بھگوتی گئ