اب یہ عالم ہے کہ دل گوشہء خلوت چاہے
خود کلامی کے لیے بھی نہ طبیعت چاہے
تو نہیں ہے تو در و بام کا پُر ہول سکوت
مجھ سے اس گھر میں رہائش کی اجازت چاہے
دل کسی رت ، کسی موسم میں نہ بہلے اک پل
ہر گھڑی بھولنے والوں کی رفاقت چاہے
بے بسی کا ہے یہ عالم کہ ہوں ریزہ ریزہ
اور آندھی مرے ہونے کی شہادت چاہے
ہجر کے دکھ میں بھی سکھ ڈھونڈنا چاہیں آنکھیں
رشتہ ِ درد بھی اب اپنی سہولت چاہے
لوگ منصب کے تمنائی ہیں ، زر کے طالب
اور صدف ؔ اپنے لیے عزت و وقعت چاہے