ابلیس کی مجلس شوریٰ
دوسری نشست – از اسلامی بینکاری و بٹکوائن
ابلیس
یہ کرنسیوں کا پُرانا کھیل، یہ دُنیائے دُوں
ساکنانِ عرشِ اعظم کی تمنّاؤں کا خوں
میں نے دِکھلایا فرنگی کو فیاٹ کرنسی کا نظام
مَیں نے توڑا سونے اور چاندی کا فسوں
میں نے ناداروں کو تھمائے فقط کاغذ کے ٹکڑے
مَیں نے مُنعِم کو دیا سرمایہ داری کا جُنوں
کون بچ سکتا ہے اس کے استحصال سے
جس نظام زر میں ہو اِبلیس کا سوزِ دروں
جس کی شاخیں ہوں سود و قمار و ٹیکس
کون کر سکتا ہے اُس نخلِ کُہن کو سرنِگُوں
پہلا مشیر
اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ اِبلیسی نظام
چت گئے ماہواری تنخواہوں کی غلامی میں عوام
ہے اَزل سے ان غریبوں کے مقدّر میں قرض و چاکری
نا آشنا ہیں کہ کیا رکھے قدرت نے تجارت میں انعام
کاروبار کی تمنا پیدا ہو نہیں سکتی کہیں
ہو کہیں پیدا تو مر جاتی ہے یا رہتی ہے خام
یہ ہماری سعیِ پیہم کی کرامت ہے کہ آج
بینکوں کے صارف ہیں صوفی و مُلّا تمام
طبعِ مشرق کے لیے موزُوں یہی افیون تھی
کہ ثمن خلقی کو رد کر سکتا ہے بینکاری چارٹر کا کلام
دروس فقہ میں ہے بیع صرف کا تذکرہ باقی تو کیا
ناپید ہو کر رہ گیا دینار و درہم کا نظام
کس کی نومیدی پہ حجت ہے یہ فرمانِ جدید؟
قانون لیگل ٹینڈر سے مسلماں پہ سنت نبوی ہے حرام
دُوسرا مشیر
خیر ہے یہ اسلامی بینکاری کا غوغا کہ شر
تُو جہاں کے تازہ فِتنوں سے نہیں ہے بے خبر
پہلا مشیر
ہُوں، مگر میری جہاں بینی بتاتی ہے مجھے
جو سود و ربا کا اک پردہ ہو، کیا اُس سے خطر
ہم نے بینکاری کو پہنایا ہے اسلامی لباس
جب ذرا آدم ہُوا ہے خود شناس و خود نگر
سودی نظام معیشت کی حقیقت اور ہے
یہ رواج مغربی اصلاحات پر نہیں ہے منحصَر
تورق منظم میں چھپا ہو یا سرعام ہو
ہے وہ سود غریب کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر
تُو نے کیا دیکھا نہیں بیعتین فی بیع کا رواج
فقہی اصلاحات میں لپٹے یہ عقود تاریک تر
تیسرا مشیر
روحِ سُرمایہ داری رہے باقی تو پھر کیا اضطراب
ہے مگر کیا تحریک دینار و درھم کی شرارت کا جواب؟
کاغذی کرنسی کے اجراء میں پنہاں ہے سود
کر دیا جنہوں نے درباری ملاؤں کو لاجواب
کیا بتاؤں کیا ہے ان کی نگاہِ پردہ سوز
آئی ایم ایف کی اسیر قوموں کے لیے روزِ حساب
اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا طبیعت کا فساد
توڑ دی بندوں نے وفاقی بینکوں کی طناب
چوتھا مشیر
توڑ ان کا تو شریعہ ایڈوائزرز میں دیکھ
جو دیکھتے ہیں حلال مگر مقررہ منافع کا خواب
کون مغربی بینکاری کی روح سے ہے لِپٹا ہُوا
یہ بینکوں کے ڈایریکٹر مست مے و سوز رباب
تیسرا مشیر
مَیں تو اُس کی عاقبت بینی کا کچھ قائل نہیں
ان کے لالچ سے اسلامی بینکاری کا بہانہ بے حجاب
پانچواں مشیر
(اِبلیس کو مخاطَب کرکے)
اے ترے سوزِ نفس سے سرمایہ داری اُستوار
تُو نے کیے نت نئے جعلی عقود آشکار
آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک تری حرارت سے استوار
جھوٹے اکانومسٹ تری تعلیم سے دانائے کار
تجھ سے بڑھ کر فطرتِ آدم کا وہ محرم نہیں
سادہ دل بندوں میں جو مشہور ہے پروردگار
کام تھا جن کا حقیقی فقہ معاملات کا پرچار
تیری غیرت سے ابَد تک سرنِگون و شرمسار
گرچہ ہیں تیرے مرید افرنگ کے ساحِر تمام
اب مجھے ان کی فراست پر نہیں ہے اعتبار
یہ میزز اور ئائیک یہ آسٹرئین فتنہ گر
کاغذی کرنسی نظام ان کے جُنوں سے تار تار
سونے اور چاندی کے سکے ہو رہے ہیں یاں تیار
کتنی سُرعت سے بدلتی ہے رسم زر و روزگار
چھا گئی آشُفتہ ہو کر وسعتِ افلاک پر
جس کو نادانی سے ہم سمجھے تھے اک مُشتِ غبار
فِتنۂ فردا کی ہیبت کا یہ عالم ہے کہ آج
با شعور ہے خاص و عام از افراط زر بے مہار
میرے آقا! وہ جہاں زیر و زبر ہونے کو ہے
جس جہاں کا ہے فقط ڈالر کی قیمت پر مدار
اِبلیس
(اپنے مشیروں سے)
ہے مرے دستِ تصرّف میں جہانِ رنگ و بو
کیا حکومتیں کیا کمپنیاں کیا مارکیٹس تُو بتُو
دیکھ لیں گے اپنی آنکھوں سے تماشا غرب و شرق
مَیں نے جب گرما دیا ڈالر و روبل کا لہُو
کیا امامانِ سیاست، کیا فقہاء و شیوخ
سب کو دیوانہ بنا سکتی ہے میری ایک ہُو
فلاح مملکت جو ناداں سمجھتا ہے اسے
ٹیکس دراصل جابر و غاصب کے جام و سبو
تاثیر ضارب نقدی نے کیا جن گریبانوں کو چاک
گنتی کہ دینار و درھم سے نہیں ہوتے رفو
کب ڈرا سکتے ہیں مجھے چند علماء کُوچہ گرد
یہ پریشاں روزگار، آشفتہ مغز، آشُفتہ مُو
ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اُس گمنام سے
ذرائع مبادلہ کی آزادی تھی جس کی آرزو
رفتہ رفتہ اس قوم میں اب تو نظر آتے ہیں وہ
خود تحویلی نوڈ سے کرتے ہیں جو ظالم وضُو
جانتا ہے، جس پہ روشن قدرتی آئین ہے
اسلامی بینکاری فتنہ فردا نہیں، بٹکوائن ہے
جانتا ہُوں میں یہ اُمّت حاملِ قُرآں نہیں
ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مومن کا دِیں
جانتا ہُوں میں کہ اس ذہنی سامراج میں
خطوات مغرب پہ ترشی ہے پیرانِ حرم کی آستیں
مگر بٹکوائن کی ماہیت سے ہے مجھے یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا س کی دائمی فطرت کہیں
الحذَر! آئینِ پیغمبر سے سَو بار الحذَر
دینِ وسعت افکار و جدت آفریں
موت کا پیغام اہل قمارو میسر کے لیے
بے زیر و زبر دو سو دس لاکھ کے رہ نشیں
کرتا ہے بلاک چین کو ہر آلودگی سے پاک
مُنعموں کو اپنے مال کا خود بناتا ہے امیں
اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب
قید لیگل ٹینڈر سے ہو آزاد خدا کی زمیں
چشمِ عالم یہی سمجھے کہ یہ کالے دھن کا کھیل ہے
غنیمت ہے کہ خود مومن کو نہیں اس پہ یقیں
ہے یہی بہتر اسلامی بینکاری میں اُلجھا رہے
کرنسی کے حسی وجود کی بحث میں اُلجھا رہے
توڑ ڈالے جس نے شرح منافع کے سب حساب
ان کے ذہن میں رہے اس کی بےقدری کا سراب
ستوشی با صفا ہے یا سہونی سازش کا نقاب
اوپن سورس کی طاقت نہ ہو ان پہ بے حجاب
عالمی مالیاتی شکنجہ ناگزیر محسوس ہو
بجتی رہے 'حکومت مجبور ہے' کی رباب
کیا مسلماں کے لیے کافی نہیں اس دَور میں
ربوی کرنسی کے ترشے ہُوئے لات و منات؟
تم بیگانہ رکھو 'بٹکوائن سٹینڈرڈ' سے اسے
افراط زر کے سامنےاس کے سب مہرے ہوں مات
خیر اس میں ہےکہ دوسرے ٹوکنوں میں الجھا رہے
این ایف ٹی اور ڈی فائے، بے وقعت بے ثبات
ہے وہی بلاک چین اس کے حق میں خوب تر
جو چھُپا دے بٹکوائن کا انقلاب کائنات
ہر نفَس ڈرتا ہُوں اس اُمّت کی بیداری سے میں
کرنسی کی قید سے نکلے تو لیں گے احتسابِ کائنات
علماء کے سامنے فقط فقہ کے مسائل رہیں
اہل دانش بس رائج اکنامکس کے قائل رہیں