ابلیس
یہ عناصر کا پرانا کھیل! یہ دنیائے دوں
ساکنانِ عرش اعظم کی تمناؤں کا خوں
اس کی بربادی پہ آج آمادہ ہے وہ کار ساز
جس نے اس کا نام رکھا تھا جہان کاف ونوں
میں نے دکھلایا فرنگی کو ملوکیت کا خواب
میں نے توڑا مسجد و دیرو کلیسا کا فسوں!
میں نے ناداروں کو سکھلایا سبق تقدیر کا
میں نے منعم کو دیا سرمایہ داری کا جنوں
کون کر سکتا ہے اس کی آتش سوزاں کو سرد
جس کے ہنگاموں میں ہو ابلیس کا سوز دروں
جس کی شاخیں ہوں ہماری آبیاری سے بلند
کون کر سکتا ہے اس نخل کہن کو سرنگوں؟
پہلا مشیر
اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ ابلیسی نظام
پختہ تر اس سے ہوئے خوئے غلامی میں عوام
ہے ازل سے ان غریبوں کے مقدر میں سجود
ان کی فطرت کا تقاضا ہے نماز بے قیام
آرزو اول تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں
ہو کہیں پیدا تو مرجاتی ہے یا رہتی ہے خام
یہ ہماری سعیِ پیہم کی کرامت ہے کہ آج
صوفی و ملا ملوکیت کے بندے ہیں تمام
طبع مشرق کے لیے موزوں یہی افیون تھی
ورنہ ’’قوالی‘‘ سے کچھ کمتر نہیں ’’علم کلام‘‘
ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا
کند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغ بے نیام
کس کی نومیدی پہ حجت ہے یہ فرمانِ جدید؟
’ہے جہاد اس دور میں مردِ مسلماں پر حرام‘
دوسرا مشیر
خیر ہے سلطانی جمہور کا غوغا کہ شر؟
تو جہاں کے تازہ فتنوں سے نہیں ہے باخبر؟
پہلا مشیر
ہوں‘ مگر میری جہاں بینی بتاتی ہے مجھے
جو ملوکیت کا اک پردہ ہو کیا اس سے خطر
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
کاروبارِ شہر یاری کی حقیقت اور ہے
یہ وجود میر و سلطاں‘ پر نہیں ہے منحصر
مجلس ملت ہو یا پرویز کا دربار ہو
ہے وہ سلطاں‘ غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام؟
چہرہ روشن‘ اندروں چنگیز سے تاریک تر!
تیسرا مشیر
روح سلطانی رہے باقی تو پھر کیا اضطراب
ہے مگر کیا اس یہودی کی شرارت کا جواب؟
وہ کلیمِ بے تجلی! وہ مسیح بے صلیب
نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارو کتاب
کیا بتاؤں کیا ہے کافر کی نگاہِ پر وہ سوز
مشرق و مغرب کی قوموں کے لیے روزِ حساب
اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا طبیعت کا فساد
توڑدی بندوں نے آقاؤں کے خیموں کی طناب
چوتھا مشیر
توڑ اس کا رومتہ الکبریٰ کے ایوانوں میں دیکھ
آل سیزر کو دکھایا ہم نے پھر سیزر کا خواب
کون بحر روم کی موجوں سے ہے لپٹا ہوا
گاہ بالد چوں صنوبر‘ گاہ نالد چوں رباب
تیسرا مشیر
میں تو اس کی عاقبت بنیی کا کچھ قائل نہیں
جس نے افرنگی سیاست کو کیا یوں بے حجاب
پانچواں مشیر
( ابلیس کو مخاطب کر کے )
اے ترے سوز نفس سے کارِ عالم استوار
تو نے جب چاہا کیا ہر پردگی کو آشکار
آب و گل تیری حرارت سے جہانِ سوز و ساز
ابلہِ جنت تری تعلیم سے دانائے کار
تجھ سے بڑھ کر فطرتِ آدم کا وہ محرم نہیں
سادہ دل بندوں میں جو مشہور ہے پروردگار
کام تھا جن کا فقط تقدیس و تسبیح و طواف
تیری غیرت سے ابد تک سرنگون و شرمسار
گرچہ ہیں تیرے مرید افرنگ کے ساحر تمام
اب مجھے ان کی فراست پر نہیں ہے اعتبار
وہ یہودی فتنہ گر‘ وہ روحِ مزدک کا بروز
ہر قبا ہونے کو ہے اس کے جنوں سے تار تار
زاغِ دشتی ہو رہا ہے ہمسر شاہین و چرغ
کتنی سرعت سے بدلتا ہے مزاجِ روزگار
چھا گئی آشفتہ ہو کر وسعتِ افلاک پر!
جس کو نادانی سے ہم سمجھے تھے اک مشتِ غبار
فتنۂ فردا کی ہیبت کا یہ عالم ہے کہ آج
کاپنتے ہیں کوہسار و مرغزار و جوئبار
میرے آقا! وہ جہاں زیر و زبر ہونے کو ہے
جس جہاں کا ہے فقط تیری سیادت پر مدار