ابھی حیرت زیادہ اور اجالا کم رہے گا
غزل میں اب کے بھی تیرا حوالہ کم رہے گا
مری وحشت پہ صحرا تنگ ہوتا جا رہا ہے
کہا تو تھا یہ آنگن لا محالہ کم رہے گا
بھلا وہ حسن کس کی دسترس میں آ سکا ہے
کہ ساری عمر بھی لکھیں مقالہ کم رہے گا
بہت سے دکھ تو ایسے بھی دیے تم نے کہ جن کا
مداوا ہو نہیں سکتا ازالہ کم رہے گا
وہ چاندی کا ہو سونے کا ہو یا پھر ہو لہو کا
سلیمؔ اہل ہوس کو ہر نوالہ کم رہے گا