ابھی کسی کے نہ میرے کہے سے گزرے گا
وہ خود ہی ایک دن اس دائرے سے گزرے گا
بھری رہے ابھی آنکھوں میں اس کے نام کی نیند
وہ خواب ہے تو یونہی دیکھنے سے گزرے گا
جو اپنے آپ گزرتا ہے کوچۂ دل سے
مجھے گماں تھا مرے مشورے سے گزرے گا
قریب آنے کی تمہید ایک یہ بھی رہی
وہ پہلے پہلے ذرا فاصلے سے گزرے گا
قصوروار نہیں پھر بھی چھپتا پھرتا ہوں
وہ میرا چور ہے اور سامنے سے گزرے گا
چھپی ہو شاید اسی میں سلامتی دل کی
یہ رفتہ رفتہ اگر ٹوٹنے سے گزرے گا
ہماری سادہ دلی تھی جو ہم سمجھتے رہے
کہ عکس ہے تو اسی آئینے سے گزرے گا
سمجھ ہمیں بھی ہے اتنی کہ اس کا عہد ستم
گزارنا ہے تو اب حوصلے سے گزرے گا
گلی گلی مرے ذرے بکھر گئے تھے ظفرؔ
خبر نہ تھی کہ وہ کس راستے سے گزرے گا