اتنی کہاں مجال ہے میرے خیال کی
جو دے سکے مثال یہ تیرے جمال کی
مہر و مہ ہیں روشن تیری تجلیوں سے
تنویر دو جہاں میں ہے تیرے جمال کی
گفت شیریں، اعلٰی ہے اسویٰ تیرا!
ملتی نہیں مثال ہے تیرے خصال کی
ثانی نہیں ہے کوئی تیرا میدانِ صِدق میں
کافر بھی دے گوائی تیرے قِیل و قال کی
والیل زلفیں ،والضحٰی مکھڑا احسن تیری تقویم ہے
تجھ کو عطا یہ خاص ہے رب جلال کی
تعریف کر سکے گا کیا قلم میرا
دے گا مثال کیا یہ اس بے مثال کی
واثق کو بھی عطا ہو تیرے در کی حاضری
اتنی سی بس عرض ہے اس خستہ حال کی