Add Poetry

اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا

Poet: Momin Khan Momin By: Ali, khi
Asar Is Ko Zara Nahi Hota

اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فزا نہیں ہوتا

بے وفا کہنے کی شکایت ہے
تو بھی وعدہ وفا نہیں ہوتا

ذکر اغیار سے ہوا معلوم
حرف ناصح برا نہیں ہوتا

کس کو ہے ذوق تلخ کامی لیک
جنگ بن کچھ مزا نہیں ہوتا

تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا

اس نے کیا جانے کیا کیا لے کر
دل کسی کام کا نہیں ہوتا

امتحاں کیجئے مرا جب تک
شوق زور آزما نہیں ہوتا

ایک دشمن کہ چرخ ہے نہ رہے
تجھ سے یہ اے دعا نہیں ہوتا

آہ طول امل ہے روز فزوں
گرچہ اک مدعا نہیں ہوتا

تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

حال دل یار کو لکھوں کیوں کر
ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا

رحم بر خصم جان غیر نہ ہو
سب کا دل ایک سا نہیں ہوتا

دامن اس کا جو ہے دراز تو ہو
دست عاشق رسا نہیں ہوتا

چارۂ دل سوائے صبر نہیں
سو تمہارے سوا نہیں ہوتا

کیوں سنے عرض مضطر اے مومنؔ
صنم آخر خدا نہیں ہوتا

Rate it:
Views: 2240
11 Jan, 2017
More Momin Khan Momin Poetry
ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم
پر کیا کریں کہ ہو گئے ناچار جی سے ہم
ہنستے جو دیکھتے ہیں کسی کو کسی ہم
منہ دیکھ دیکھ روتے ہیں کس بے کسی سے ہم
ہم سے نہ بولو تم، اسے کیا کہتے ہیں بھلا
انصاف کیجیے پوچھتے ہیں آپ ہی سے ہم
بیزار جان سے جو نہ ہوتے تو مانگتے
شاہد شکایتوں پہ تری مدعی سے ہم
اس کُو میں جا مریں گے مدد اے ہجومِ شوق
آج اور زور کرتے ہیں بے طاقتی سے ہم
صاحب نے اس غلام کو آزاد کر دیا
لو بندگی کہ چھوٹ گئے بندگی سے ہم
بے روئے مثلِ ابر نہ نکلا غبارِ دل
کہتے تھے ان کو برقِ تبسم ہنسی سے ہم
ان ناتوانیوں پہ بھی تھے خارِ راہِ غیر
کیوں کر نکالے جاتے نہ اس کی گلی سے ہم
کیا گُل کھلے گا دیکھیے ہے فصلِ گُل تو دور
اور سوئے دشت بھاگتے ہیں کچھ ابھی سے ہم
منہ دیکھنے سے پہلے بھی کس دن وہ صاف تھے
بے وجہ کیوں غبار رکھیں آرسی سے ہم
ہے چھیڑ اختلاط بھی غیروں کے سامنے
ہنسنے کے بدلے روئیں نہ کیوں گدگدی سے ہم
وحشت ہے عشق پردہ نشیں میں دمِ بکا
منہ ڈھانکتے ہیں پردۂ چشمِ پری سے ہم
کیا دل کو لے گیا کوئی بیگانہ آشنا
کیوں اپنے جی کو لگتے ہیں کچھ اجنبی سے ہم
لے نام آرزو کا تو دل کو نکال لیں
مومن نہ ہوں جو ربط رکھیں بدعتی سے ہم
واصف
جوں نکہت گل جنبش ہے جی کا نکل جانا جوں نکہت گل جنبش ہے جی کا نکل جانا
اے باد صبا میری کروٹ تو بدل جانا
پالغز محبت سے مشکل ہے سنبھل جانا
اس رخ کی صفائی پر اس دل کا بہل جانا
سینہ میں جو دل تڑپا دھر ہی تو دیا دیکھا
پھر بھول گیا کیسا میں ہاتھ کا پھل جانا
اتنا تو نہ گھبراؤ راحت یہیں فرماؤ
گھر میں مرے رہ جاؤ آج اور بھی کل جانا
اے دل وہ جو یاں آیا کیا کیا ہمیں ترسایا
تو نے کہیں سکھلایا قابو سے نکل جانا
کیا ایسے سے دعویٰ ہو محشر میں کہ میں نے تو
نظارۂ قاتل کو احسان اجل جانا
ہے ظلم کرم جتنا تھا فرق پڑا کتنا
مشکل ہے مزاج اتنا اک بار بدل جانا
حوروں کی ثنا خوانی واعظ یوں ہی کب مانی
لے آ کہ ہے نادانی باتوں میں بہل جانا
عشق ان کی بلا جانے عاشق ہوں تو پہچانے
لو مجھ کو اطبا نے سودے کا خلل جانا
کیا باتیں بناتا ہے وہ جان جلاتا ہے
پانی میں دکھاتا ہے کافور کا جل جانا
مطلب ہے کہ وصلت میں ہے بوالہوس آفت میں
اس گرمی صحبت میں اے دل نہ پگھل جانا
دم لینے کی طاقت ہے بیمار محبت ہے
اتنا بھی غنیمت ہے مومنؔ کا سنبھل جانا
amjad
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets