اجالا ہی اجالا روشنی ہی روشنی ہے
اندھیرے میں جو تیری آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے
ابھی جاگا ہوا ہوں میں کہ تھک کر سو چکا ہوں
دئیے کی لو سے کوئی آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے
تجسس ہر افق پر ڈھونڈھتا رہتا ہے اس کو
کہاں سے اور کیسی آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے
عمل کے وقت یہ احساس رہتا ہے ہمیشہ
مرے اندر سے اپنی آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے
میں جب بھی راستے میں اپنے پیچھے دیکھتا ہوں
وہی اشکوں میں بھیگی آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے
کہیں سے ہاتھ بڑھتے ہیں مرے چہرے کی جانب
کہیں سے سرخ ہوتی آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے
درختو مجھ کو اپنے سبز پتوں میں چھپا لو
فلک سے ایک جلتی آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے