بند تھا دروازہ بھی اور اگر میں بھی تنہا تھا میں
وہم تھا جانے مرا یا آپ ہی بولا تھا میں
یاد ہے اب تک مجھے وہ بد حواسی کا سماں
تیرے پہلے خط کو گھنٹوں چومتا رہتا تھا میں
راستوں پر تیرگی کی یہ فراوانی نہ تھی
اس سے پہلے بھی تمہارے شہر میں آیا تھا میں
میری انگلی پر ہیں اب تک میرے دانتوں کے نشاں
خواب ہی لگتا ہے پھر بھی جس جگہ بیٹھا تھا میں
آج امجدؔ وہم ہے میرے لیے جس کا وجود
کل اسی کا ہاتھ تھامے گھومتا پھرتا تھا میں
اد کے صحرا میں کچھ تو زندگی آئے نظر
سوچتا ہوں اب بنا لوں ریت سے ہی کوئی گھر
کس قدر یادیں ابھر آئی ہیں تیرے نام سے
ایک پتھر پھینکنے سے پڑ گئے کتنے بھنور
وقت کے اندھے کنوئیں میں پل رہی ہے زندگی
اے مرے حسن تخیل بام سے نیچے اتر
تو اسیر آبروئے شیوۂ پندار حسن
میں گرفتار نگاہ زندگیٔ مختصر
ضبط کے قریے میں امجدؔ دیکھیے کیسے کٹے
سوچ کی سونی سڑک پر یاد کا لمبا سفر