ارض و سما کے مالک
عفو و عطا کے مالک
تعریف کروں کیسے
حمد و ثنا کے مالک
انداز نرالے سب
بحر و خلا کے مالک
محتاج یہ بندے ہم
جود و سخا کے مالک
دے بخش گناہوں کو
عدل و سزا کے مالک
یہ سست روی نکلے
کرم و جلا کے مالک
ہے عکس جھلکتا بھی
صبر و رضا کے مالک
رنگین حسیں منظر
شمس و ضیا کے مالک
ہو صبح یہ شامیں جو
سحر و صبا کے مالک
مقصد ہے عبادت ہی
فکر و حیا کے مالک
چکھنا ہے مزا اک دن
موت و فنا کے مالک
توفیق سدا مل جائے
قدر و قضا کے مالک
ٹھنڈی بھی ہوا چلتی
نہر و صفا کے مالک
آباد ہمیں رکھیو
رحم و شفا کے مالک
اک آس رہے ناصر
خیر و جزا کے مالک