اس ابتدا کی سلیقے سے انتہا کرتے
وہ ایک بار ملے تھے تو پھر ملا کرتے
کواڑ گرچہ مقفل تھے اس حویلی کے
مگر فقیر گزرتے رہے صدا کرتے
ہمیں قرینۂ رنجش کہاں میسر ہے
ہم اپنے بس میں جو ہوتے ترا گلا کرتے
تری جفا کا فلک سے نہ تذکرہ چھیڑا
ہنر کی بات کسی کم ہنر سے کیا کرتے
تجھے نہیں ہے ابھی فرصت کرم نہ سہی
تھکے نہیں ہیں مرے ہاتھ بھی دعا کرتے
انہیں شکایت بے ربطی سخن تھی مگر
جھجک رہا تھا میں اظہار مدعا کرتے
چقیں گری تھیں دریچوں پہ چار سو انورؔ
نظر جھکا کے نہ چلتے تو اور کیا کرتے