اس ا نا خو کی ا نا درکار ہے
رنگ میں ڈوبی حنا درکار ہے
اسکو اس دل کی وفا درکارہے
مجھکو بھی اسکی رضا درکار ہے
ہجر کی راتوں میں جلنے کے لیے
دل کی صورت اک دیا درکار ہے
دل مرا ترسے و صا ل یا ر کو
اک جھلک بس خو شنما درکار ہے
مستقل دکھتی ہو صو ر ت یا ر کی
ا یسا بس ا ک آ ئینہ در کار ہے
میرے پہلو میں ر ہے یہ دل مرا
التجا ہے یہ عطا درکار ہے
جب کہا اس نے صلہ کیاچاہیئے
ہم نے یہ مانگا سزا درکار ہے
اسکو کرنے کےلیے نشترزنی
میری لمحوں کی خطا درکارہے
ہر ستم تو کرچکے ہو اور کیا
اس سے بڑھ کے سانحہ درکارہے
شوق سے ہستی مٹادی یہ غزل
عشق میں کس کو جزا درکارہے