اس بستی کے اک کوچے میں
Poet: ابن انشا By: Saleem Ullah Shaikh, Karachi
اس بستی کے اک کوچے میں ، اک انشا نام کا دیوانہ
اک نار پہ جان کو ہار گیا، یہ مشہور ہے اس کا افسانہ
اس نار میں ایسا روپ نہ تھا، جس روپ سے دن کی دھوپ دبے
اس شہر میں کیا کیا گوری ہے، مہتاب رخے گلنار لبے
کچھ بات تھی اس کی باتوں میں، کچھ بھید تھے اس کی چتون میں
وہی بھید کہ جوت جگاتے ہیں، کسی چاہنے والے کے من میں
اسے اپنا بنانے کی دھن میں، ہوا آپ ہی آپ سے بیگانہ
اس بستی کے اک کوچے میں، اک انشا نام تھا دیوانہ
نہ چنچل کھیل جوانی کے، نہ پیار کی الھڑ گھاتیں تھیں
بس راہ میں ان کا ملنا تھا، یا فون پہ ان کی باتیں تھیں
اس عشق پہ ہم بھی ہنستے تھے، بے حاصل سا بے حاصل تھا؟
اک زور بپھرتے ساگر میں، ناکشتی تھی ناساحل تھا
جو بات تھی ان کے جی میں تھی، جو بھید تھا یکسر انجانہ
اس بستی کے اک کوچے میں، اک انشا نام تھا دیوانہ
اک روز مگر برکھا رت میں، وہ بھادوں تھی یا ساون تھا
دیوار پہ بیچ سمندر کے، یہ دیکھنے والوں نے دیکھا
مستانہ ہاتھ میں ہاتھ دیے، یہ ایک کگر پر بیٹھے تھے
یوں شام ہوئی پھر رات ہوئی، جب سیلانی گھر لوٹ گئے
کیا رات تھی وہ جی چاہتا ہے اس رات پہ لکھیں افسانہ
اس بستی کے اک کوچے میں، اک انشا نام تھا دیوانہ
ہاں عمر کا ساتھ نبھانے کے تھے عہد بہت پیماں بہت
وہ جن پہ بھروسہ کرنے میں کچھ سود نہیں، نقصان بہت
وہ نار یہ کہہ کر دور ہوئی مجبوری ساجن مجبوری
یہ وحشت سے رنجور ہوئے اور رنجوری سی رنجوری؟
اس روز ہمیں معلوم ہوا، اس شخص کا مشکل سمجھانا
اس بستی کے اک کوچے میں، اک انشا نام تھا دیوانہ
گو آگ سے چھاتی جلتی تھی، گو آنکھ سے دریا بہتا تھا
ہر ایک سے دکھ نہیں کہتا تھا، چپ رہتا تھا غم سہتا تھا
ناداں ہیں وہ جو چھیڑے ہیں، اس عالم میں نادانوں کو
اس شخص سے ایک جواب ملا، سب اپنوں کو بیگانوں کو
اس شخص سے ایک جواب ملا، سب اپنوں کو بیگانوں کو
کچھ اور کہو تو سنتا ہوں اس باب میں کچھ مت فرمانا
اس بستی کے اک کوچے میں، اک انشا نام تھا دیوانہ
اب آگے کا تحقیق نہیں، گو سنتے کو ہم سننے کو ہم سنتے تھے
اس نار کی جو جو باتیں تھیں، اس نار کے جو جو قصے تھے
اک شام جو اس کو بلوایا، کچھ سمجھایا بیچارے نے
اس رات پہ قصہ پاک کیا، کچھ کھا ہی لیا دکھیارے نے
کیا بات ہوئی، کس طور ہوئی؟ اخبار سے لوگوں نے جانا
اس بستی کے اک کوچے میں، اک انشا نام تھا دیوانہ
ہر بات کی کھوج تو ٹھیک نہیں، تم ہم کو کہنے دو
اس نار کا نام مقام ہے کیا، اس بات پر پردہ رہنے دو
ہم سے بھی تو سودا ممکن ہے، تم سے بھی جفا ہو سکتی ہے
یہ اپنا بیاں ہو سکتا ہے، یہ اپنی کتھا ہو سکتی ہے
وہ نار بھی آخر پچھتائی ، کس کام کا ایسا پچھتانا؟
اس بستی کے اک کوچے میں، اک انشا نام تھا دیوانہ
یا ہمیں کو خبر نہیں ہوتی
ہم نے سب دکھ جہاں کے دیکھے ہیں
بیکلی اس قدر نہیں ہوتی
نالہ یوں نارسا نہیں رہتا
آہ یوں بے اثر نہیں ہوتی
چاند ہے کہکشاں ہے تارے ہیں
کوئی شے نامہ بر نہیں ہوتی
ایک جاں سوز و نامراد خلش
اس طرف ہے ادھر نہیں ہوتی
دوستو عشق ہے خطا لیکن
کیا خطا درگزر نہیں ہوتی
رات آ کر گزر بھی جاتی ہے
اک ہماری سحر نہیں ہوتی
بے قراری سہی نہیں جاتی
زندگی مختصر نہیں ہوتی
ایک دن دیکھنے کو آ جاتے
یہ ہوس عمر بھر نہیں ہوتی
حسن سب کو خدا نہیں دیتا
ہر کسی کی نظر نہیں ہوتی
دل پیالہ نہیں گدائی کا
عاشقی در بہ در نہیں ہوتی
اس بات سے ہم کو کیا مطلب یہ کیسے ہو یہ کیوں کر ہو
اک بھیک کے دونوں کاسے ہیں اک پیاس کے دونو پیاسے ہیں
ہم کھیتی ہیں تم بادل ہو ہم ندیاں ہیں تم ساگر ہو
یہ دل ہے کہ جلتے سینے میں اک درد کا پھوڑا الہڑ سا
نا گپت رہے نا پھوٹ بہے کوئی مرہم ہو کوئی نشتر ہو
ہم سانجھ سمے کی چھایا ہیں تم چڑھتی رات کے چندرماں
ہم جاتے ہیں تم آتے ہو پھر میل کی صورت کیوں کر ہو
اب حسن کا رتبہ عالی ہے اب حسن سے صحرا خالی ہے
چل بستی میں بنجارہ بن چل نگری میں سوداگر ہو
جس چیز سے تجھ کو نسبت ہے جس چیز کی تجھ کو چاہت ہے
وہ سونا ہے وہ ہیرا ہے وہ ماٹی ہو یا کنکر ہو
اب انشاؔ جی کو بلانا کیا اب پیار کے دیپ جلانا کیا
جب دھوپ اور چھایا ایک سے ہوں جب دن اور رات برابر ہو
وہ راتیں چاند کے ساتھ گئیں وہ باتیں چاند کے ساتھ گئیں
اب سکھ کے سپنے کیا دیکھیں جب دکھ کا سورج سر پر ہو
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا
اس دل کے دریدہ دامن کو دیکھو تو سہی سوچو تو سہی
جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا
شب بیتی چاند بھی ڈوب چلا زنجیر پڑی دروازے میں
کیوں دیر گئے گھر آئے ہو سجنی سے کرو گے بہانا کیا
پھر ہجر کی لمبی رات میاں سنجوگ کی تو یہی ایک گھڑی
جو دل میں ہے لب پر آنے دو شرمانا کیا گھبرانا کیا
اس روز جو ان کو دیکھا ہے اب خواب کا عالم لگتا ہے
اس روز جو ان سے بات ہوئی وہ بات بھی تھی افسانا کیا
اس حسن کے سچے موتی کو ہم دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں
جسے دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں وہ دولت کیا وہ خزانا کیا
اس کو بھی جلا دکھتے ہوئے من اک شعلہ لال بھبوکا بن
یوں آنسو بن بہہ جانا کیا یوں ماٹی میں مل جانا کیا
جب شہر کے لوگ نہ رستا دیں کیوں بن میں نہ جا بسرام کرے
دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانا کیا






