اس رہ گزر میں اپنا قدم بھی جدا ملا
اتنی صعوبتوں کا ہمیں یہ صلہ ملا
اک وسعت خیال کہ لفظوں میں گھر گئی
لہجہ کبھی جو ہم کو کرم آشنا ملا
تاروں کو گردشیں ملیں ذروں کو تابشیں
اے رہ نورد راہ جنوں تجھ کو کیا ملا
ہم سے بڑھی مسافت دشت وفا کہ ہم
خود ہی بھٹک گئے جو کبھی راستہ ملا