اس سے پہلے ہم نہ تھے ایسے دیوانے لوگوں
کیسے کیسے لوگ لگے آ کے ٹھکانے لوگوں
پستیوں کی اوک میں دیمک لگے پیمانے لوگوں
پربتوں کی اوٹ میں جن کے تھے مہ خانے لوگوں
زلزلوں کی شدت ہے اور دل دھڑک رہا
جینے کے ہم نے ڈھونڈ لئے کیسے کیسے بہانے لوگوں
چارہ گری کی آس میں داستان اپنی سنا گیا
وہ جو معتبر تھا کبھی چھپانے میں فسانے لوگوں
آج ذکر جگر ہے اور آج ہی ہم کھو گئے
ہم سے بڑھ کر کون تھا جو نبھاتا یارانے لوگوں
اک گھڑی سہیلی ہے اک لمحہ یار کی
کچھ اس طرح کے ہو گئے ہیں آجکل دوستانے لوگوں