اس شام سہانی میں اک گیت سنانا ہے
دریا کی روانی میں اک دیپ جلانا ہے
گا گا کے ہوائیں بھی اب مجھ کو بلاتی ہیں
آج اپنی صداؤں میں ان کو بھی ملانا ہے
دل جب بھی مرا چاہے تو پاس چلا آئے
اس شوقِ تمنا کو خود سے بھی چھپانا ہے
ہم درد کے پہلو میں رو رو کے تڑپتے ہیں
خود ہی تو نہیں رونا اس کو بھی رلانا ہے
پھولوں کی تمنا میں کیوں خار ہی ملتے ہیں
پھولوں کے ہیں شیدائی پھولوں کو بتانا ہے
اس پیار کی دنیا میں ہم ساتھ رہے ہر دم
سوتی ہوئی آنکھوں میں سپنا یہ سہانا ہے
یہ غم کی رفاقت بھی دائم ہی صدفؔ جانو
اس دردِ تمنا نے ساتھ ہی جانا ہے