اس پر بھی دشمنوں کا کہیں سایہ پڑ گیا
غم سا پرانا دوست بھی آخر بچھڑ گیا
جی چاہتا تو بیٹھتے یادوں کی چھاؤں میں
ایسا گھنا درخت بھی جڑ سے اکھڑ گیا
غیروں نے مجھ کو دفن کیا شاہراہ پر
میں کیوں نہ اپنی خاک میں غیرت سے گڑ گیا
خلوت میں جس کی نرم مزاجی تھی بے مثال
محفل میں بے سبب وہی مجھ سے اکڑ گیا
بس اتنی بات تھی کہ عیادت کو آئے لوگ
دل کے ہر ایک زخم کا ٹانکا ادھڑ گیا
کس کس کو اپنے خون جگر کا حساب دوں
اک قطرہ بچ رہا ہے سو وہ بھی نبڑ گیا
یاروں نے خوب جا کے زمانے سے صلح کی
میں ایسا بددماغ یہاں بھی بچھڑ گیا
کوتاہیوں کی اپنی میں تاویل کیا کروں
میرا ہر ایک کھیل مجھی سے بگڑ گیا
اب کیا بتائیں کیا تھا خیالوں کے شہر میں
بسنے سے پہلے وقت کے ہاتھوں اجڑ گیا