اس پر تمہارے پیار کا الزام بھی تو ہے
اچھا سہی قتیلؔ پہ بدنام بھی تو ہے
آنکھیں ہر اک حسین کی بے فیض تو نہیں
کچھ ساگروں میں بادۂ گلفام بھی تو ہے
پلکوں پہ اب نہیں ہے وہ پہلا سا بار غم
رونے کے بعد کچھ ہمیں آرام بھی تو ہے
آخر بری ہے کیا دل ناکام کی خلش
ساتھ اس کے ایک لذت بے نام بھی تو ہے
کر تو لیا ہے قصد عبادت کی رات کا
رستے میں جھومتی ہوئی اک شام بھی تو ہے
ہم جانتے ہیں جس کو کسی اور نام سے
اک نام اس کا گردش ایام بھی تو ہے
اے تشنہ کام شوق اسے آزما کے دیکھ
وہ آنکھ صرف آنکھ نہیں جام بھی تو ہے
منکر نہیں کوئی بھی وفا کا مگر قتیلؔ
دنیا کے سامنے مرا انجام بھی تو ہے