اس کا جلوہ جو کوئی دیکھنے والا ہوتا
وعدۂ دید قیامت پہ نہ ٹالا ہوتا
بام پر تھے وہ کھڑے لطف دوبالا ہوتا
مجھ کو بھی دل نے اچھل کر جو اچھالا ہوتا
کیسے خوش رنگ ہیں زخم جگر و داغ جگر
ہم دکھاتے جو کوئی دیکھنے والا ہوتا
دل نہ سنبھلا تھا اگر دیکھ کے جلوہ اس کا
تو نے اے درد جگر اٹھ کے سنبھالا ہوتا
تم جو پردے میں سنورتے ہو نتیجہ کیا ہے
لطف جب تھا کہ کوئی دیکھنے والا ہوتا
تم نے ارمان ہمارا نہ نکالا نہ سہی
اپنے خنجر کا تو ارمان نکالا ہوتا
دل کے ہاتھوں نہ ملا چین کسی روز جلیلؔ
ایسے دشمن کو نہ آغوش میں پالا ہوتا